مدارس کے چراغ اور معیشت کی آندھیاں

مدارس کے چراغ اور معیشت کی آندھیاں

 



مدارس اسلامیہ صدیوں سے دین کی حفاظت ، علم کی اشاعت اور ایمان کی آبیاری کے قلعے کے طور پر امت کا سرمایہ افتخار رہے ہیں ۔ ان کے اساتذہ وفضلا نے صبر و قناعت کی زندگی اختیار کی ، عسرتوں پر مسکرائے ، اور اپنی تنگدستی کو امت کی سعادتوں میں ڈھال دیا ۔ یہی بر صغیر کے اکابر علماء کا طرۂ امتیاز تھا ؛ مگر آج ایک نئی آندھی اٹھی ہے ، جوان چراغوں کی لو کو مدھم کرنے لگی ہے ۔ پر کشش سرکاری نوکریوں کی چمک نے مدارس کے بہت سے تازہ دم سپاہیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ جو قافلہ کل دین کی پاسبانی کے لیے صف بشتہ کھڑا تھا ، آج وہ سرکاری اسکولر و مکاتب کی راہوں کا مسافر بن رہا ہے ۔ یہ صورتِ حال مدارس کے قابل اساتذہ کے وجود اور ان کے مستقبل کے لیے خطرے کی ناقوس ہے ۔ طبقۂ علماء کے لیے سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ معاش کی فکر میں اس قدر الجھ جائیں کہ علم و دین کی اصل خدمت پس منظر میں چلی جائے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہمارے اکابر نے سادہ زیست کو زینت بنایا ، عسرتوں کو خندہ پیشانی سے جھیلا ، مگر علم دین کی شمع بھجنے نہ دی ۔ ان کی زندگیاں مسلسل جدوجہد ، بے پناہ ایثار اور دین کی خاطر جاں فشانی سے عبارت ہیں ۔

طالب علمانہ دور میں ایک جواں سال طالب علم معمولی وسائل کے ساتھ ، شب و روز کی مشقت سہ کر ، محض ذوق شوق کے سہارے علمی پیاس بجھاتا ہے ۔ یہی قربانی اس کے مستقبل کی برکتوں کی ضمانت بنتی ہے ۔ اگر یہی جذبہ تدریسی دور میں بھی چند سال برقرار رہے ، اور وہ گنتی کے کچھ عرصہ عسرت کو مسکراہٹ کے ساتھ برداشت کر لے ، تو اللہ تعالی آ سائشوں کے ایسے ایسے دروازے کھول دیتے ہیں جن کا گمان بھی نہیں ہوتا ۔ تاریخ کے صفحات شاہد ہیں کہ جنہوں نے صبر کیا ، قناعت کو اوڑھنا بچھونا بنایا ، اور معمولی وسائل پر سادہ زیست اختیار کی ، اللہ تعالی ان کے لیے ایسے فتوحات کے در کھولے کہ شاہان وقت ان کے قدموں میں جھکنے لگے ۔ انہی کے ذریعے امت کو علمی ، فکری اور روحانی فتوحات نصیب ہوئیں ۔

افسوس کہ آج کے دور میں ایک نیا طوفان اٹھا ہے ۔ یو پی بورڈ اور بہار مدرسہ بورڈ ، اور پھر بی پی ایس سی وغیرہ کے امتحانات نے جب نوکریوں کی راہیں کھولیں تو ہزاروں با صلاحیت مدرسین اور کہنہ مشق اساتذہ حدیث مدارس سے رخ موڑ کر سرکاری بحالیوں کی طرف لپک پڑے ۔ ایسا عمومی انحراف ہے جس نے مدارس کی علمی و روحانی فضا کو بری مجروح کر دیا ہے ۔

میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ کسی حکومتی منظم سازش کا شاخسانہ ہے یا طبقۂ علماء کی محض وقتی مجبوریوں کا اثر ؛ مگر اتنا طے ہے کہ مدارس کے لیے یہ منظر نہایت تشویش ناک ہے ۔ اس سے مجال انکار نہیں کہ زندگی کی اس مادی دنیا میں رزق کا مسئلہ ایک تسلیم شدہ ہمہ گیر حقیقت ہے ، جس سے چشم پوشی ممکن نہیں ۔ انسان خواہ کتنی ہی روحانی بلندیوں کو چھو لے ، اس کے باوجود کی زمینی ضرورتیں اسے دستک دیتی رہتی ہیں ۔ بھوک ، پیاس ، لباس اور سر چھپانے کی جگہ ، یہ سب تقاضے انسان کو اس حقیقت کی یاد دلاتے ہیں کہ آدمی کے بغیر زیست کا بار اٹھانا تقریبا ناممکن ہے ۔

اسلام نے اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا ، بلکہ ایسے دین کے دائرے میں شامل کیا ۔ کہ عبادات اور ایمانی فرائض کے بعد ، کی جدوجہد کو ایک مستقل ذمہ داری قرار دے کر دوسرا فریضہ قرار دیا گیا ہے ۔ رسول اکرم ﷺ کا یہ فرمان ہے کہ : حلال روزی کی تلاش وجستجو ، فرض عبادات کے بعد ایک اور فریضہ ہے " ( مرقات المفاتیح، کتاب البیوع ، باب الکسب و طلب الحلال ،ج،: 5 ، ص: 1904 ، ط : دارالکفر ) 

اس حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے کہ کسب حلال محض ایک دنیاوی ضرورت نہیں ؛ بلکہ دینی تقاضا بھی ہے ۔ انبیاء کے وارثوں کے لیے بالخصوص یہ امر نہایت اہم ہے کہ وہ ذائع آمدنی اختیار کریں جن سے ان کی خودداری محفوظ رہے ۔ اس کی پیشانی علم کی روشنی سے روشن ہو ، نہ کہ سوال کی زنجیر سے جھکی ہوئی ۔ محتاجی کا داغ اس کے شایان شان نہیں ۔

تاریخ انبیاء پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے ہاتھ سے محنت کیے بغیر زندگی بسر نہ کی ۔ کسی نے لکڑی تراشی ، کسی نے کھیتی باڑی کی ، کسی نے جانور چرائے ، اور کسی نے تجارت کی ۔ اور جان کائنات ، سررے دو جہاں ﷺ نے بھی اجیاد کے پہاڑوں پر اجرت پر لوگوں کی بکریاں چرائیں ، قافلۂ تجارت کے ساتھ ملک شام کا سفر کیے ، اور مدینہ کے انواح ( مقام جرف ) میں کھیتی باڑی میں ہاتھ ڈالا ۔ گویا عرس کے فرستادہ بھی زمین پر اپنے ہاتھ سے کماتے تھے ، تاکہ امت کو یہ سبق دیں کہ عزت محنت میں ہے ، ذلت سوال میں اور حلال روزی کی طلب ہر پیغمبر کے نقش قدم میں جلوہ گر ہے ۔

اسی تناظر میں علماء و اہل تدریس و تعلیم کے لیے موزوں یہی ہے کہ تدریس کو محور بنائے رکھتے ہوئے اور اس کے نظام کو متاثر کیے بغیر ، بوقت ضرورت ، خارج اوقات میں تجارت ، مضاربت ، حرفت ، یا کوئی اور جائز ذریعہ اختیار کریں ۔ یوں علم بھی محفوظ رہے گا ، عزت بھی سلامت رہے گی اور ضروریات حیات بھی پوری ہوں گی ۔ اس کے برعکس اگر محض ذریعہ معاش کی تلاش میں کتاب و سنت کے درس و تدریس سے کٹ کر دوسری راہوں کا رخ کیا جائے تو نہ یہ دانشمندی ہے اور نہ ہی پائیدار حل ! 

فوج در فوج تدریس کے سپاہی اگر مدارس چھوڑ کر عصری اسکولوں کی نوکریوں میں کھو جائیں ، تو یہ طرز عمل مدارس کے وجود کے لیے زہر قاتل ہے ۔ مدارس کے اصل سرمایہ ان کے مخلص ، یہ سارے ایثار پیشہ اور قناعت سعار اساتذہ ہیں ، اگر یہی قافلہ منتشر ہو گیا تو مدارس محض اینٹوں کی عمارتیں اور نصاب کی کتابیں بن کر رہ جائیں گی ، ان کی روح پرواز کر جائے گی ۔ آج سب سے بڑھ کر ضرورت اس بات کی ہے کہ اہل علم اپنی اصل حیثیت کو پہچانیں ۔  اپنے اکابر کے روشن نقوش پر چلتے ہوئے دین کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد اعلی بنائیں ۔ چند سالوں کی ریاضت اور صبر و تحمل کے بعد دنیا بھی آپ کے قدموں میں آۓ گی ، عزت بھی رفیق ہوگی اور شہرت و وقار بھی ! یہی وہ چراغ ہے جس کی روشنی سے امت کا مستقبل منور ہوتا ہے ۔

Post a Comment

0 Comments