مردوں میں سب سے پہلے ایمان کس نے لایا
المستفاد : دینیات ( ص: ٢٧٥ ؛ تا : ٢٨١ )
محمد اکرام پلاموی
نیک لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مان گۓ ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گہرے دوست تھے ، مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایمان لائے ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیک بی بی تھیں ، عورتوں میں سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ایمان لائیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے ، لڑکوں میں سب سے پہلے ایمان حضرت علی رضی اللہ عنہ لائے ۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام تھے ، غلاموں میں سب سے پہلے ایمان حضرت زید رضی اللہ عنہ لائے ۔ یہ چاروں بہت نیک تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اچھائیوں سے واقف تھے ، سنتے ہی سچ جانا ، فورا ایمان لے آۓ ، اللہ تعالی ان سب سے راضی ہو ۔
پہاڑی کا وعظ
کچھ دن بعد اللہ کا حکم آیا " اے پیغمبر! تم اپنے قریبی رشتہ داروں کو اللہ کے عذاب سے ڈراؤ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا ۔ مکہ کے قریب ایک پہاڑی ہے اس کا نام ,, صفا ،، ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پہاڑی پر چڑھ گئے اور مکہ والوں کو آواز دی ، جب سب لوگ جمع ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں پہاڑی کے اوپر ہوں تم پہاڑی کے نیچے ، میں ادھر بھی دیکھ رہا ہوں ادھر بھی ، ( مگر تمہاری نظر صرف ایک طرف ہے ) اگر میں کہوں کہ اس پہاڑی کے پیچھے ڈاکوؤں کی ایک فوج ہے جو تم پر حملہ کرنے والی ہے تو کیا تم یقین کرو گے ؟
سب نے ایک زبان ہو کر کہا ، بے شک آپ اوپر ہیں ہر طرف دیکھ رہے ہیں ، آپ صادق ہیں ، امین ہیں ، آپ کبھی جھوٹ نہیں بولتے ، ہم آپ کی بات پر ضرور یقین کریں گے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لوگو! یہ تو سمجھانے کے لیے یہ ایک مثال تھی ۔ یقین کرو ، موت تمہارے سر پر کھڑی ہے ۔تمہیں ایک دن مرنا ہے ، مر کر اللہ کے پاس جانا ہے ، اپنے کیے کا بدلہ پانا ہے ، اگر تم ایمان لا کر نیک نہ بن گئے ، تو تم پر سخت عذاب نازل ہوگا ، تم صرف دنیا کو دیکھ رہے ہو اور میں آخرت کو بھی دیکھ رہا ہوں ۔
مکہ والوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وعظ سنا، کتنی سچی باتیں تھیں ، پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے اچھے ڈھنگ سے سمجھایا تھا ، سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا جانتے تھے مگر اس سچی بات پر یقین نہ کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہنے لگے ، برا بھلا کہنے والوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا ابو لہب سب سے آگے آگے تھا ، بولا : کیا تم نے ہمیں اسی لیے بلایا تھا ؟
اللہ کا دین پھیلتا رہا
اللہ کا دین آہستہ آہستہ پھیلتا رہا ، کافر پریشان تھے ، کیا کریں ، کیسے حق کی راہ روکیں ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے ہیں ، تھوڑے سے ساتھی ہیں ، بے یار و مددگار ہیں ، پھر بھی لوگ ان کی طرف کھینچ رہے ہیں ، باپ دادا کا دین مٹ رہا ہے ۔ سب مل کر ابو طالب کے پاس گئے ، بولے : ابو طالب ! سارے خاندان کی عزت خاک میں مل رہی ہے ، بھتیجے کو روکیے ، ہمارے ، آپ کے معبودوں کو جھٹلا رہے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ عبادت کے لائق صرف ایک اللہ ہے ، ہم سب نادان ہیں کہ لات و منات کی پوجا کر رہے ہیں ، اب پانی سر سے اونچا ہو رہا ہے ۔ ابو طالب نے کسی طرح ان سے پیچھا چھڑایا ۔ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنا کام کرتے رہے ، دین پھیلتا رہا ۔
کافر پھر ابو طالب کے پاس آے ، ڈرایا دھمکایا ، جان کا خوف دلایا ! ابو طالب سوچ میں پڑ گئے ، بھتیجے کو بلایا اور کہا : بیٹے ! مجھ پر اتنا بوجھ نہ ڈالو ۔۔۔۔ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ذرا نہ گھبرائے ، بولے: چچا جان! یہ کام تو اللہ کا ہے ، وہ میری مدد کرے گا ، اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے ہاتھ میں چاند لا کر رکھ دیں تب بھی میں اس کام سے باز نہ آؤں گا ۔ یہ کہہ کر آنسو جاری ہو گئے ۔ ابو طالب بھی متاثر ہوۓ بولے : جاؤ بیٹا اطمینان سے اپنا کام کرتے رہو ، میں تمہیں ظالموں کے ہاتھ میں نہ دوں گا ۔
حبشہ کی ہجرت
کافر برابر مسلمانوں کو ستاتے رہے ، طرح طرح کے دکھ دیتے رہے ، پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ستایا ، پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے ساتھیوں کو ستایا ۔ جب پانی سر سے اونچا ہو گیا ، قرآن پڑھنا ، اللہ کی عبادت کرنا ، دین پر چلنا ، دوسروں کو دین کی باتیں بتانا ، سب دو بھر ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا :
پیارے ساتھیوں ! تم نے دین کے لیے بہت دکھ سہے ، اب جو چاہے ملک حبش چلا جائے ۔ حبش کا بادشاہ نجاشی ہے ، بہت نیک ہے ، وہاں کوئی روک نہیں ہے ، آزادی سے دین پر عمل کر سکو گے ، دین پھیلانے کا بھی موقع ملے گا ۔ چنانچہ بہت سے مسلمان گھر بار چھوڑ کر حبشہ چلے گئے ۔ کافروں کے ظلم سے تنگ آکر وطن چھوڑ دیا ، دین کی خاطر دوسرے ملک میں جا بسے ، اسی کو ,, ہجرت ،، کہتے ہیں ۔
مگر کافروں نے اب بھی چین نہ لینے دیا ، پیچھا کرتے کرتے حبشہ پہنچے ، نجاشی سے شکایت کی ، مسلمان دربار میں بلائے گئے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت جعفر رضی اللہ عنہ تھے ۔ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے سردار تھے ، انہوں نے نجاشی کے دربار میں ایک تقریر کی ، تقریر بہت اچھی تھی ۔
0 Comments