بادلوں سے آواز آئی

بادلوں سے آواز آئی 



المستفاد: بکھرے موتی جلد چہارم(ص،١٧١تا:١٧٢)

محمد اکرام پلاموی 

حضرت جی مولانا محمد یوسف صاحب ( نور اللہ مرقدہ ) نے پاکستان میں تقریر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت ( سنہ ١٨ھ ) میں پورے جزیرۂ عرب میں ایسا قحط پڑھا کہ کھانے پینے کی چیزیں بھی کسی قیمت پر نہیں ملیں ، فاقوں کی شدت کی وجہ سے لوگ انتقال کر رہے تھے ، اسی دوران حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ اطلاع ملی کہ مصر کے اندر بے شمار پیداوار ہے اور مصر اس سے پہلے فتح ہو چکا تھا اور حضرت عمر بن العاص رضی اللہ عنہ وہاں کے گورنر تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو خط لکھا کہ: 

یہاں حجاز میں بالکل غلہ نہیں ہے ۔ اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ مصر میں بہت غلہ ہے ، لہذا یہاں والوں کے لیے وہاں سے غلہ بھیجو ۔ 

گورنر صاحب نے جواب تحریر فرمایا : آپ مطمئن رہیں میں اتنا بڑا قافلہ غلے سے لدوا کر بھیجوں گا کہ اس کا پہلا اونٹ مدینہ میں اتر رہا ہوگا اور آخری اونٹ مصر میں لد رہا ہوگا ۔

مصر اور حجاز کا ایک مہینہ کا راستہ ہے ۔ جو اس زمانے میں اونٹوں کے ذریعے طے کیا جاتا تھا ۔ یہ سارا راستہ غلہ کے اونٹوں سے بھر دوں گا ۔ چنانچہ غلہ آیا اور اتنا ہی آیا اور مدینہ پاک میں اور اطراف میں منادی کروا دی گئی کہ جس کا جی چاہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دستر خوان پر کھانا کھائے اور جس کا جی چاہے اپنا راشن اپنے گھر لے جائے ، چنانچہ ہزار ہا ہزار لوگوں نے وہیں دستر خوان پر کھانا کھایا اور بہت سے اپنے گھر لے گئے ۔ 

ایک صحابی جو جنگل میں اپنے رٹھان ( ٹھکانے) پر رہتے تھے انہوں نے بھی آنے جانے والوں سے سنا کہ مدینہ پاک میں غلہ آگیا ہے ، اور تقسیم ہو رہا ہے ان کے پاس ایک بکری تھی ، انہوں نے سوچا کہ میں چلا جاؤں گا ، اور اکیلی بکری کو کوئی جانور وغیرہ کھا جائے گا ۔ لاؤ بکری کو ذبح کر لوں اور کھالوں کہ چلنے کی کچھ طاقت آجاۓ گی ۔ چنانچہ بکری کو ذبح کیا تو ایک قطرہ بھی خون نہ نکلا یہ منظر دیکھ کر وہ صحابی رو پڑے اور سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ ہمارا بھی برا حال ہے اور تو اور ہمارے جانوروں کا بھی خون خشک ہو گیا ( بکری میں خون جب ہوتا جب چارہ کھاتی ، پانی پیتی ، جب نہ چارہ کھایا نہ پانی پیا ، نہ خون رہا نہ نکلا ) وہ صحابی سر پکڑ کر رونے لگے اور روتے روتے گر گئے اور گر کر نیند آگئی ۔ 

نیند میں انہوں نے دیکھا کہ رسول پاک ﷺ تشریف لائے اور فرمایا کہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور میری طرف سے سلام کہہ دو اور کہہ دو کہ تو تو بڑا عقلمند تھا تیری عقل کو کیا ہوا ؟ یہ صحابی اٹھے اور گرتے پڑتے مدینہ طیبہ پہنچے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دروازے پر دستک دی اور کہا : رسول اللہ ﷺ کا قاصد اجازت طلب کرتا ہے ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ ننگے پیر مکان کے باہر تک آۓ ۔ پوچھا کیا بات ہے ؟ انہوں نے خواب کا پورا قصہ بیان کیا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ سن کر لرز گئے اور کہنے لگے کہ مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ؟ اسی وقت مدینہ پاک میں جو اہل الرائے تھے ان کو جمع کیا اور ارشاد فرمایا کہ بھائی ! بار بار میں تم لوگوں سے کہتا رہا کہ اگر مجھ سے کوئی چوک ہو جائے تو مجھے متنبہ کر دیا جائے مگر تم لوگوں نے مجھے متنبہ نہیں کیا ، میرے آقا جناب محمد ﷺ نے مجھے یہ پیام بھیجا ہے ۔ بتاؤ ! مجھ سے کیا غلطی ہوئی ؟ صحابہ نے کہا کہ ہماری سمجھ میں تو کوئی غلطی نہیں آتی ، ایک صحابی کھڑے ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ میری سمجھ میں ایک بات آئی ہے کہ آپ کے ملک میں قحط پڑ رہا تھا اور غلہ نہیں تھا اور لوگ بھوک کی وجہ سے مر رہے تھے ، مگر بجائے اس کے کہ آپ اللہ تعالی سے مانگتے آپ نے اپنے گورنر اور اپنے ہی جیسے انسان سے درخواست کی ، یہ وہ غلطی ہے ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : واقعتا یہی غلطی ہے ، پھر سب نے کہا کہ واقعی یہی غلطی ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی وقت دعا مانگی اپنی خطا کی معافی چاہی ، دعا کرنا تھا کہ آسمان کے بادلوں میں کھلبلی مچ گئی اور دوڑ لگ گئی اور ہر بادل ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہا تھا اور یہ کہہ رہا تھا ۔ 

چلو مدینے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بلایا ہے ۔ چلو مدینے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بلایا ہے ۔ ( تاریخ کامل ، ج: ٢،ص:٢٣٥،آخرت کی یاد ملفوظات حضرت اقدس مولانا افتخار الحسن کاندھلوی ،ص: ٦٠)

Post a Comment

0 Comments