ایک نو جوان صحابی کی حضور ﷺ سے عجیب محبت

ایک نو جوان صحابی کی حضور ﷺ سے عجیب محبت 



المستفاد: بکھرے موتی جلد چہارم (ص،٦٨؛تا:٦٩)

محمد اکرام پلاموی 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت پر جو دعا دی ہے کسی پر نہیں دی ۔ حضرت طلحہ بن براء رضی اللہ عنہ نے آکر کہا کہ حضور ﷺ ! آپ سے مجھے بہت محبت ہے جو حکم دیں کروں گا ۔ فرمایا اپنی ماں کا گلا کاٹ کر لا ۔ امتحان تھا فورا تلوار اٹھا کر ماں کی طرف چلے کہ حضور ﷺ نے واپس بلا کر کہا کہ میں رشتے کاٹنے کے واسطے نہیں آیا ۔ تیری محبت کا امتحان تھا تیری ماں نہیں مروانی ، اس سے ذاتی تعلق مروانا ہے ماں سے ملو کہ خدا نے کہا ہے ، نہ کہ اپنی ذاتی تعلق کی وجہ سے ۔ 

اس واقعہ کے بعد حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ بیمار ہو گئے ۔ حضور ﷺ انہیں پوچھنے آۓ ، تعلق والوں کی پوچھ ہوا کرتی ہے ، جب حضور ﷺ پہنچے تو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ بے ہوش تھے ۔ تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد فرمایا کہ یہ چل دینے والا ہے ، اس کے مرنے کی اطلاع مجھے کرنا ، یہ کہہ کر آپ ﷺ تشریف لے گئے ۔ تشریف لے جاتے ہی انہیں ہوش آیا کہنے لگے حضور ﷺ مجھے پوچھنے نہیں آۓ ؟ کہا گیا آۓ تھے کہنے لگے جب مر جاؤں خود ہی دفن کر دینا ۔ حضور ﷺ کو اس کی اطلاع نہ کرنا کہ میرے محلے میں یہودی رہتے ہیں اگر حضور ﷺ میری وجہ سے رات یہاں تشریف لائیں تو ممکن ہے کسی یہودی سے انہیں تکلیف پہنچے ۔ میرے نام پر حبیب کو ایک ذرہ کی تکلیف برداشت نہیں ہے ۔ 

چنانچہ انتقال ہوا ۔ رشتے داروں نے نہلا دھلا کر کفن پہنا کر دفن کر دیا ۔ اس زمانہ میں مرنے والے کے رشتہ دار ممبئی کلکتہ سے آنے کا انتظار کرتے ہیں اور یہاں حضور ﷺ جیسے کا بھی انتظار نہیں ، مرنے اور دفن میں یوں وقت نہیں لگتا تھا ، ارے وہاں تو حکم ہے کہ میت کو جلدی لے کر چلو اگر اچھا آدمی ہے تو اسے تاخیر کر کے اس کی نعمتوں سے کیوں محروم کر رہے ہو ؟ اور اگر برا آدمی ہے پھر اسے اپنے کندھوں پر کیوں اٹھا رکھا ہے ؟ جلدی اس وجہ سے کروائی کہ اس کا عذاب گھر ہی میں شروع نہ ہو جائے ۔

تاریخ اس کی شاہد ہے حضرت عبید اللہ بن زیاد رضی اللہ عنہ جس کے حکم پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوئے وہ قتل ہوا اس کا سر رکھا ہوا تھا ، ایک ازدہا آیا ناک میں گھس کر منہ سے نکل آیا دو مرتبہ ایسا ہی کیا ۔ حضرت سلیمان ( عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ سے پہلے بادشاہ) کی میت کو جب قبر میں رکھا جانے لگا میت ہلی لڑکے نے کہا میرا باپ زندہ ہو گیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا جلدی کرو دفن میں خدا کی پکڑنے آلیا ہے ۔ 

الغرض صبح کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی ، سبب معلوم ہوا قبر پر گئے دعا میں یہ بھی کہا : اے اللہ تو اس سے ایسے مل کہ تو اسے دیکھ کر ہنس رہا ہو ، یہ تجھے دیکھ کر ہنس رہا ہو ، یہ محبت کا انعام ہے ، جس میں انسان کو محبوب کے علاوہ اور کچھ نہیں بھاتا محبت اگر آگئی تو سارے عمل آجائیں گے اس محبت کے واسطے اعمال پر محنت مانگی جاتی ہے ۔ 

(خصوصی تقاریر حضرت جی مولانا یوسف صاحب رحمت اللہ علیہ ص:۵،٦۔قصہ ہذا کا مضمون دیکھیے حیات الصحابہ جو: ۲،٤١٣)

Post a Comment

0 Comments