ایک یتیم بچے کا درد بھرا قصہ

 ایک یتیم بچہ کا درد بھرا قصہ 



المستفاد: بکھرے موتی جلد چہارم ( ص ١٢١،تا،١٢٢ )

محمد اکرام پلاموی 

ایک خوش نصیب صحابی جن کی قبر میں خود حضور ﷺ اترے اور فرمایا : اے اللہ : میں اس سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو جا ۔ ایک یتیم بچہ تھا ، اس کا نام عبداللہ تھا ۔ چچا نے پرورش کی تھی ، جب جوان ہوئے تو چچا نے اونٹ بکریاں غلام دے کر ان کی حیثیت درست کر دی تھی ۔ عبداللہ نے اسلام کے متعلق کچھ سنا اور دل میں توحید کا شوق پیدا ہوا لیکن چچا سے اس قدر ڈرتا تھا کہ اظہار اسلام نہ کر سکا ۔ جب نبی کریم ﷺ فتح مکہ سے واپس گئے تو عبداللہ نے چچا سے کہا " پیارے چچا ! مجھے برسوں انتظار کرتے گزر گئے کہ کب آپ کے دل میں اسلام کی تحریک پیدا ہوتی ہے اور آپ کب مسلمان ہوتے ہیں ؟ لیکن آپ کا حال وہی پہلے کا سا چلا آتا ہے ، میں اپنی عمر پر زیادہ اعتماد نہیں کر سکتا مجھے اجازت دیجئے کہ میں مسلمان ہو جاؤں ۔

چچا نے جواب دیا " دیکھ اگر تو محمد ﷺ کا دین قبول کرنا چاہتا ہے تو میں سب کچھ تجھ سے چھین لوں گا تیرے بدن پر چادر اور تہبند تک باقی نہ رہنے دوں گا ،، عبداللہ نے جواب دیا " چچا جان ! میں مسلمان ضرور بنوں گا اور محمد ﷺ کا اتباع قبول کروں گا ، شرک اور بت پرستی سے میں بیزار ہو چکا ہوں ، اب جو آپ کا منشا ہے کیجیے اور جو کچھ میرے قبضہ میں زرو مال و غیرہ ہے سب کچھ سنبھال لیجئے ، میں جانتا ہوں کہ ان چیزوں کو آخر ایک روز یہی دنیا میں چھوڑ جانا ہے اس لیے میں ان کے لیے سچے دین کو ترک نہیں کر سکتا ۔

عبداللہ نے یہ کہہ کر کپڑے اتار دیے اور ماں کے سامنے گئے ۔ ماں دیکھ کر حیران ہوئی کہ کیا ہوا ! عبداللہ نے کہا " میں مومن اور موحد ہو گیا ہوں، نبی کریم ﷺ کی خدمت میں جانا چاہتا ہوں ، ستر پوشی کے لیے کپڑے کی ضرورت ہے مہربانی کر کے دے دیجئے ۔ماں نے ایک کمبل دے دیا ، عبداللہ نے کمبل پھاڑا آدھے کا تہبند بنا لیا ، آدھا اوپر کر لیا اور مدینہ کو روانہ ہو گیا ۔ علی الصبح مسجد نبوی میں پہنچ گیا اور مسجد سے تکیہ لگا کر آنحضرت ﷺ کے انتظار میں بیٹھ گیا ، نبی کریم ﷺ جب مسجد مبارک میں آۓ اسے دیکھ کر پوچھا کہ کون ہو ؟ کہا میرا نام عبدالعزی ہے ، فقیر و مسافر ہوں ، عاشق جمال اور طالب ہدایت ہو کر در دولت آپہنچا ہوں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " تمہارا نام عبداللہ ہے ، ذو البجادین لقب ، تم ہمارے قریب ہی ٹھہرو اور مسجد میں رہا کرو ۔ " عبداللہ اصحاب صفہ میں شامل ہو گیا ، نبی کریم ﷺ سے قرآن سیکھتا اور دن بھر عجب ذوق شوق اور جوش و نشاط سے پڑھا کرتا ۔ایک دفعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگ تو نماز پڑھ رہے ہیں اور یہ اعرابی اس قدر بلند آواز سے ذکر کر رہا ہے کہ دوسروں کی قرأت میں مزاحمت ہوتی ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا " عمر! اسے کچھ نہ کہو یہ تو خدا اور رسول کے لیے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آیا ہے ۔

عبداللہ کے سامنے غزوہ تبوک کی تیاری ہونے لگی تو یہ بھی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آۓ عرض کیا یا رسول اللہ! دعا فرمائیے کہ میں بھی راہ خدا میں شہید ہو جاؤں ، نبی کریم ﷺ نے فرمایا جاؤ کسی درخت کا چھلکا اتار لاؤ ۔ عبداللہ لے آۓ تو نبی کریم ﷺ نے وہ چھلکا ان کی بازو پر باندھ دیا اور زبان مبارک سے فرمایا : " الہی ! میں کفار پر اس کا خون حرام کرتا ہوں ۔ ،، عبداللہ نے کہا " یا رسول اللہ ! میں تو شہادت کا طالب ہوں ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا " جب اللہ کے راستے میں نکلو اور پھر بخار آۓ اور مر جاؤ تب بھی تم شہید ہی ہو گے ۔

تبوک پہنچ کر یہی ہوا کہ بخار چڑھا اور انتقال کر گئے ۔ بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے عبداللہ کے دفن کی کیفیت دیکھی ہے ۔ رات کا وقت تھا حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں چراغ تھا ، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ کی ان کی لاش کو لحد میں رکھ رہے تھے ، نبی کریم ﷺ بھی ان کی قبر میں اترے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ وعمر رضی اللہ عنہ سے فرما رہے تھے: اپنے بھائی کو مجھ سے قریب کرو ، آنحضرت ﷺ نے قبر میں اینٹیں بھی اپنے ہاتھ سے رکھیں اور پھر دعا میں فرمایا " اے اللہ میں ان سے راضی ہوا تو بھی ان سے راضی ہو جا ۔ ،، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کاش اس قبر میں میں دفن کیا جاتا ۔

( مدارج النبوۃ مترجم ،٢،٩٠،٩١۔ابن ہشام ۲۔۵۲۷،۵۲۸ )

Post a Comment

0 Comments