حضرت سعد اسود رضی اللہ عنہ کا حوروں سے نکاح
المستفاد : بکھرے موتی جلد چہارم (ص،٤٣؛تا:٤٥)
محمد اکرام پلاموی
حضرت سعد اسود رضی اللہ عنہ ایک جوان قابل قدر صحابی تھے ان کا واقعہ سیرت کی کتابوں میں عجیب و غریب انداز سے نقل کیا گیا ہے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے امام عز الدین ابن الاثیر رحیم اللہ تعالی نے اسد الغابہ کے اندر مفصل طور پر نقل فرمایا ہے ۔ اس مفصل روایت کا خلاصہ ہم آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ حضرت سعد اسود رضی اللہ عنہ نہایت کالے اور نہایت بدصورت تھے ۔ انہوں نے اپنی شادی کے لیے مدینہ منورہ کے ہر قبیلہ میں پیغام پیش کیا اور بڑی کوششیں کیں مگر ان کی بدصورتی اور ان کے زیادہ کالے ہونے کی وجہ سے کسی نے اپنی لڑکی کو دینا پسند نہیں کیا ۔
حضرت سعد رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ ! کیا میرا کالا پن اور بد صورتی مجھے جنت میں داخل ہونے سے روک سکتی ہے ؟ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم اللہ اور رسول پر ایمان لا چکے ہو اور تقوی اور پرہیزگاری کا راستہ اختیار کر چکے ہو تو ایسا ہرگز نہ ہوگا بلکہ اللہ کے یہاں تمہارا بہت بلند مقام ہوگا ۔
تو حضرت سعد اسود رضی اللہ عنہ نے کلمہ پڑھ کر اپنا ایمان ثابت کیا اور حضور ﷺ کے سامنے اپنی پریشانی کا اظہار کیا کہ یا رسول اللہ ! جو لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور جو آپ کی مجلس میں نہیں آتے ہیں دونوں قسم کے لوگوں کے یہاں میں نے اپنی شادی کا پیغام دیا ہے لیکن میری بد صورتی کی وجہ سے کوئی بھی اپنی لڑکی دینے کے لیے تیار نہیں ہے تو حضور ﷺ نے ان کے لیے مدینہ منورہ کی سب سے خوبصورت اور سب سے باعزت گھرانے کی پڑھی لکھی سمجھدار لڑکی منتخب فرمائی ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم عمیر بن وہب ثقفی رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ ان کی لڑکی جو سب سے زیادہ خوبصورت سب سے زیادہ سمجھدار ہے اس کے ساتھ میں نے تمہارا نکاح کر دیا اور تم جا کر عمیر بن وہب ثقفی کو میرا پیغام سنا دینا کہ ان کی لڑکی کے ساتھ میں نے تمہارا نکاح کر دیا ہے ۔
جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے جا کر لڑکی کے ماں باپ کو اطلاع دی تو ماں باپ نے ان کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور واپس کر دیا ۔ جب لڑکی نے یہ منظر دیکھا تو ماں باپ سے کہنے لگی کہ اللہ کی طرف سے تمہارے خلاف وحی نازل نہ ہو جائے ۔
اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے غضب سے بچیے میں تو اپنے لیے اس کو پسند کرتی ہوں جس کو اللہ اور رسول اللہ ﷺ نے پسند فرمایا ہے ۔ اس لڑکی کے بھی کمال ایمان کی انتہا ہو گئی کہ اس نے دلوں کو دیکھا صورت کو نہیں دیکھا ۔ اللہ اور رسول کی خوشی کو دیکھا ۔
جب لڑکی کے ماں باپ حضور ﷺ کی مجلس میں گئے تو حضور ﷺ نے پوچھا کہ تم نے میرا بھیجا ہوا آدمی واپس کر دیا تو انہوں نے شرمندگی کا اظہار کیا اور توبہ کی اور عرض کیا کہ ہم کو شبہ ہوا کہ انہوں نے کہیں جھوٹ نہ کہا ہو ، ہم تو آپ کے تابع ہیں ہم ان کو اپنی لڑکی دیتے ہیں چنانچہ ماں باپ نے اپنی چہیتی بیٹی کو حضرت سعد اسود رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیا ۔ لڑکی نے ماں باپ سے کہا تھا کہ جب اللہ اور رسول کا کوئی فیصلہ ہوتا ہے تو اس میں کسی کو اختیار نہیں رہتا اور لڑکی نے یہ آیت پڑھ کر سنائی : وما کان لمؤمن ولا مؤمنۃ اذا قضی اللہ ورسولہ أمرا أن یکون لھم الخیرۃ من أمرھم ومن یعص اللہ و رسولہ فقد ضل ضلالا مبینا ( سورۂ احزاب: آیت ٢٦،پ : ٢٢ )
اور کسی مرد مومن اور عورت کے لیے جب اللہ تعالی اور اس کے رسول کوئی فیصلہ کر دیں تو ان کو اپنی طرف سے کوئی اختیار نہیں رہتا اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہو جائے گا ۔
اس کے بعد حضرت سعد اسود رضی اللہ عنہ اپنی بیوی کے لیے بازار سے کچھ سامان خریدنے کے لیے تشریف لے گئے اسی اثناء میں جنگ کا اعلان ہوا تو انہوں نے بیوی کے لیے سامان خریدنے کے بجائے اسی پیسہ سے تلوار نیزہ گھوڑا وغیرہ جنگی سامان خرید لیا اور جنگ میں جا کر لڑتے لڑتے شہید ہو گئے ۔
تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سر مبارک کو اپنی گود میں لیا اور پھر ان کی تلوار اور گھوڑا وغیرہ ان کی بیوی کے پاس بھیجا ، ان کے سسرال والوں سے کہلا بھیجا کہ اللہ تعالی نے تمہاری لڑکی سے زیادہ خوبصورت لڑکیوں سے آخرت میں اس کی شادی کرا دی ہے اس لیے کہ اللہ تعالی ظاہری خوبصورتی کو نہیں دیکھتا بلکہ اندرونی سیرت اور قلوب کو دیکھتا ہے اللہ تعالی نے حضرت سعد اسود رضی اللہ عنہ کو اعلی مقام عطا فرمایا ہے ۔ ( اسد الغابہ ٢/١٨٤ )


0 Comments