امام بخاری رحمت اللہ علیہ اور امیر بخارا کا واقعہ
المستفاد: بکھرے موتی جلد چہارم (ص،٣٩؛تا،٤٠)
محمد اکرام پلاموی
جب امام بخاری رحمہ اللہ تعالی ملک شام و عراق وغیرہ سے ہو کر نیشا پور تشریف لانے لگے تو نیشا پور کے مشہور محدث محمد بن یحیی ذہلی نے متعلقین سے کہا کہ میں امام بخاری رحمہ اللہ تعالی کے استقبال کے لیے جا رہا ہوں جس کا جی چاہے استقبال کرے ۔ اس اعلان کے بعد نیشا پور شہر سے دو دو تین تین میل دور تک جا کر لوگوں نے امام بخاری رحمت اللہ علیہ کا استقبال کیا ، اور جب نیشاپور پہنچ کر امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے درس حدیث کا سلسلہ شروع فرمایا تو کئی ہزار طلبہ نے امام بخاری کے درس میں شرکت کی ۔
مگر چند ہی دن کے بعد کسی نے خلق قرآن کا ایک اختلافی مسئلہ اٹھا کر امام بخاری رحمہ اللہ تعالی پر الزام لگایا اور بہت جلد ان کا حلقہ درس ختم ہو گیا ۔ صرف امام مسلم رحمہ اللہ تعالی ان کے ساتھ رہے ۔ آخر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ مایوس ہو کر اپنے وطن بخارا کے لیے روانہ ہو گئے ۔ جب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نیشا پور سے روانہ ہونے کی اطلاع اہل بخارا کو ملی تو بڑی شان و شوکت کے ساتھ لوگوں نے امام بخاری رحمہ اللہ تعالی کا استقبال کیا ، اور بخارا آکر درس حدیث کا سلسلہ امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے شروع فرمایا ، ہزاروں طلبہ ان کے درس میں شرکت کرنے لگے ۔
مگر حاسدین کو یہ گوارا نہ ہو سکا ۔ انہوں نے یہ ترکیب نکالی کہ امیر بخارا خلاد بن احمد ذہلی کو کسی طرح اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ امام بخارا کو حکم کریں کہ وہ امیر کے صاحبزادوں کو بخاری شریف اور تاریخ کبیر کو درس دیں ، امیر بخارا کی سمجھ میں بات آئی تو امیر نے کہا کہ آپ دربار شاہی میں تشریف لا کر مجھے اور میرے صاحبزادوں کو بخاری اور تاریخ کبیر کا درس دیں ۔ مگر امام صاحب رحمہ اللہ تعالی نے اسی قاصد کی زبانی کہلا بھیجا کہ میں علم دین کو سلاطین کے دروازوں پر لے جا کر ذلیل نہیں کروں گا جسے پڑھنا ہو میرے پاس آکر پڑھے ۔
امیر بخارا نے دوبارہ کہلوایا کہ اگر آپ نہیں آسکتے تو صاحبزادوں کے لیے مخصوص کوئی وقت عنایت فرما دیں کہ ان کے ساتھ کوئی دوسرا شریک نہ ہو ، اس پر امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے جواب دیا کہ احادیث رسول ﷺ پوری امت کے لیے یکساں ہیں ان کی سماعت سے میں کسی کو محروم نہیں کر سکتا ہوں ۔ اگر میرا یہ جواب ناگوار معلوم ہو تو آپ میرا درس روکنے کا حکم دے دو تاکہ میں خدا کے دربار میں عزر پیش کر سکوں ، اس پر امیر بخارا سخت ناراض ہوا اور حاسدوں نے امیر کے اشارے پر امام کو بددین اور بدعتی ہونے کا الزام لگایا ۔
پھر حاکم نے بخارا سے نکل جانے کا حکم دیا تو امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے نہایت کبیدہ خاطر ہو کر ان مخالفین کے لیے بددعاء کی اے اللہ! جس طرح امیر نے مجھے ذلیل کیا ہے اسی طرح اس کو بھی اپنی ذات اور اپنی اولاد اور اپنے اہل و عیال کی بے عزتی و ذلت دکھا دے ۔ ( نصر الباری ١/٤٤،مقدمہ فتح الباری باکستانی نسخہ٤٩٣)
چنانچہ ابھی ایک ماہ بھی نہیں گزر پایا تھا کہ خلیفۃ المسلمین نے اس امیر کی کسی غلطی پر سخت ناراض ہو کر اس کو معزول کر دیا اور اس کا منہ کالا کر کے گدھے پر سوار کرا کے پورے شہر بخارا میں اس کی تذلیل کروائی ۔ اور اس کو جیل میں ڈال دیا گیا اور انتہائی ذلت و رسوائی سے چند دن کے بعد مر گیا اور اس امیر کے معاونین مختلف بلاؤں میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو گئے ۔
آج تمام امت دیکھ رہی ہے کہ بخارا ، سمرقند وغیرہ جو علماء دین کے مرکز رہے ہیں ، وہاں پر علمائے دین کی ناقدری کی وجہ سے اللہ نے وہاں سے علم اور علماء کو ایسا اٹھا لیا کہ صدیوں تک وہاں کوئی کلمہ سکھانے والا نہیں رہا ہے ۔ اللھم احفظنا من غضبک و سخط اولیاءک اے اللہ! ہم کو اپنے غضب اور اپنے اولیاء کی ناراضگی سے محفوظ فرما ۔


0 Comments