صرف آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل بھی اندھا ہوتا ہے

صرف آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل بھی اندھا ہوتا ہے 



المستفاد: بکھرے موتی جلد چہارم (ص:٦٥،تا؛٦٧)

محمد اکرام پلاموی 

أفلم یسیروا فی الارض فتکون لھم قلوب یعقلون بھا أو آذان یسسمعون بھا ، فانھا لا تعمی الابصار ولکن تعمی القلوب التی فی الصدورأ (پ١٧. سورۂ حج، آیت ٤٦)

کیا انہوں نے زمین میں سیر و سیاحت نہیں کی جو ان کے دل ان باتوں کو سمجھنے والے ہوتے یا کانوں سے ہی ان واقعات کو سن لیتے بات یہ ہے کہ صرف آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوتی بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں ۔ 

تشریح سلف سے منقول ہے کہ فرعون کے خدائی دعوے اور خدا کی پکڑ کے درمیان چالیس سال کا عرصہ تھا ۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی ہر ظالم کو ڈھیل دیتا ہے پھر جب پکڑتا ہے تو چھٹکارا نہیں ہوتا ۔ پھر آپ ﷺ نے آیت (وکذالک أخذ ربک اذا أخذ القریٰ وھی ظالمۃ ان اخذه ألیم شدید) پڑھی ۔ 

پھر فرمایا کہ کئی ایک بستیوں والے ظالموں کو جنہوں نے رسولوں کی تکذیب کی تھی ہم نے غارت کر دیا ، جن کے محلات کھنڈر بنے پڑے ہیں ، اوندھے گرے ہوئے ہیں ان کی منزلیں ویران ہو گئیں ان کی آبادیاں اجڑ گئیں ان کے کنویں خالی پڑے ہیں ، جو کل تک آباد تھے آج خالی ہیں ان کے چونہ گچ جو دور سے سفید چمکتے ہوئے دکھائی دیتے تھے جو بلند و بالا اور پختہ تھے وہ آج اجڑے پڑے ہیں ، وہاں الو بول رہا ہے ان کی مضبوطی انہیں نہ بچا سکی ان کی خوبصورتی اور پائیداری بیکار ثابت ہوئی ، رب کے عذاب نے انہیں تہس نہس کر دیا جیسے فرمان ہے ( أینما تکونوا یدرککم الموت ولو کنتم فی بروج مشیدۃ) یعنی گو تم چونہ گچ پکے قلعوں میں محفوظ ہو لیکن موت وہاں بھی تمہیں چھوڑنے کی نہیں ۔ کیا وہ خود زمین میں چلے پھرے نہیں ؟ نہ ہی کبھی غور و فکر کیا کہ کچھ عبرت حاصل ہوتی ۔ 

امام ابن ابی الدنیا رحمت اللہ علیہ ، کتاب التفکر و الاعتبار میں روایت لائے ہیں کہ اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کے پاس وحی بھیجی کہ اے موسی ! لوہے کی نعلین پہن کر لوہے کی لکڑی لے کر زمین میں چل پھر کر آثار و عبرت کو دیکھ وہ ختم نہ ہوں گے یہاں تک کہ تیری لوہے کی جوتیاں ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں اور لوہے کی لکڑی بھی ٹوٹ پھوٹ جائے ۔

اس کتاب میں بعض دانشمندوں کا قول ہے کہ وعظ کے ساتھ اپنے دل کو زندہ کر ، اور غور و فکر کے ساتھ اسے نورانی کر ، اور زہد اور دنیا سے بچنے کے ساتھ اسے مار دے اور یقین کے ساتھ اسے قوی کر لے ، اور موت کے ذکر سے اسے ذلیل کر دے ، اور فنا کے یقین سے اسے صبر دے ، دنیا کی مصیبتیں اس کے سامنے رکھ کر اس کی آنکھیں کھول دے ، زمانہ کی تنگی اسے دکھا کر اسے دہشت ناک بنا دے ، دنوں کے الٹ پھیر سمجھا کر اسے بیدار کر دے ۔ 

گزشتہ واقعات سے اسے عبرت ناک بنا ، اگلوں کے قصے سنا کر ہوشیار رکھ ، ان کے شہروں میں اور ان کےسوانح میں غور و فکر کرنے کا عادی بنا ، اور دیکھ کہ گنہگاروں کے ساتھ اس کا معاملہ کیسا کچھ ہوا ، کس طرح وہ لوٹ پوٹ کر دیے گئے ۔ پس یہاں بھی یہی فرمان ہے کہ اگلوں کے واقعات سامنے رکھ کر دلوں کو سمجھدار بناؤ ، ان کی ہلاکت کے سچے فسانے سن کر عبرت حاصل کرو ۔ سن لو آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوتیں بلکہ سب سے بڑا اندھاپا دل کا ہے ۔ گو آنکھیں صحیح سالم موجود ہیں ۔ دل کے اندھا پے کی وجہ سے نہ تو عبرت حاصل ہوتی ہے نہ خیر و شر کی تمیز ہوتی ہے ۔ ابو محمد ابن حیان اندلسی رحمت اللہ علیہ نے جی کا انتقال سنہ ٥١٨ھ میں ہوا ہے اس مضمون کو اپنے چند اشعار میں خوب نبھایا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں : 

اے وہ شخص جو گناہوں میں لذت پا رہا ہے کیا اپنے بڑھاپے اور برے آپے سے بھی تو بے خبر ہے ؟ اگر نصیحت اثر نہیں کرتی تو کیا دیکھنے سننے سے بھی عبرت حاصل نہیں ہوتی ؟ سن لے ! آنکھیں اور کان اپنا کام نہ کریں تو اتنا برا نہیں جتنا برا یہ ہے کہ واقعات سے سبق حاصل نہ کیا جائے ، یاد رکھ نہ تو دنیا باقی رہے گی نہ آسمان نہ سورج چاند ، گو جی نہ چاہے مگر دنیا سے تم کو ایک روز بادل نا خواستہ کوچ کرنا ہی پڑے گا کیا امیر ہو یا غریب کیا شہری ہو کیا دیہاتی ۔(تفسیر ابن کثیر،ج:٣،٠٣٤،١٣٤)

Post a Comment

0 Comments