خاموشی میں عافیت ہے/ مولانا رضوان قاسمی

خاموشی میں عافیت ہے 



تحریر: مولانا رضوان صاحب ، ( القاسمی ) 

استاذ حدیث جامعہ اسلامیہ بنارس 

خلیفہ مہدی بن منصور العباسی کے دربار میں ایک شخص ہاتھ میں نعلین لیے ہوئے داخل ہوا ، اور کہا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کے نعلین مبارک ہیں ، میں نے آپ کو ہدیہ کیا ، مہدی نے شوق سے اس نعلین کو دونوں ہاتھوں میں لے کر بوسہ دیا اور آنکھوں سے لگایا ، پھر حکم دیا کہ اس کو دس ہزار درہم دے دیے جائیں ، جب وہ شخص چلا گیا تو مہدی نے کہا کہ : قسم بخدا مجھے یقین تھا کہ یہ شخص جھوٹ بول رہا ہے ۔ 

رسول اللہ ﷺ کے نعلین دیکھے تک نہیں ہیں ، پہننا تو دور کی بات ہے ۔ پھر بھی میں نے ہدیہ قبول کر لیا ، ورنہ وہ شخص یہاں سے نکلتا تو لوگوں میں مشہور کرتا کہ دیکھو بادشاہ نے رسول اللہ ﷺ کے مبارک نعلین کا ہدیہ رد کر دیا ، قبول نہیں کیا ، اور عام لوگوں کا مزاج یہ ہے کہ ایسی خبروں پر جلدی یقین کر لیتے ہیں ، اور طاقتور کے مقابلے میں کمزور کی حمایت میں کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ خواہ وہ ظالم ہی کیوں نہ ہو ، اس لئے میں عافیت اسی میں سمجھی کہ دس ہزار درہم میں اس کی زبان خرید لوں ۔

 ( البدایہ والنہایہ: 13/540 ) 

لہذا بولنے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ بولنے کا موقع ہے یا نہیں ، بولنے سے کہیں کوئی فتنہ تو نہیں کھڑا ہو گا ، کسی کی تحقیر تو نہیں ہوگی ، کسی کے لیے مسائل تو نہیں کھڑے ہو جائیں گے ، اگر بولنا ضروری ہو تو غور کرنا چاہیے کہ بولنا کتنا مفید ہے اور کتنا غیر مفید ، اگر مفید ہے تو دیکھنا چاہیے کہ کیا بولیں اور کیا نہ بولیں ، لہذا پہلے تو لیں پھر بولیں ، اگر اتنی ریہرسل نہیں کر سکتے تو چپ رہیں ۔ 

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

 من کان یؤمن بالله والیوم آخر فلیقل خیرا ، أو لیصمت ، جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو ؛ اس کو چاہیے کہ بولے تو بھلی بات بولے ورنہ چپ رہے ۔ ( بخاری شریف رقم 6018 )

ایک بادشاہ کا واقعہ

نوشیرواں بادشاہ اپنے وزیروں سے مشورہ کر رہا تھا، سب اپنی اپنی رائے پیش کر رہے تھے اور بزرچمہر جو وزیراعظم تھا اور بڑا دانشمند تھا ؛ خاموش بیٹھا تھا ، لوگوں نے پوچھا آپ کیوں خاموش ہیں ؟ کچھ آپ بھی بولیے ، بزرچمہر نے کہا: میں کیا بولوں ؟ میں بولنے کی ضرورت نہیں سمجھتا ، جب ضروری سمجھوں گا بولوں گا ۔ 

بسا اوقات خاموش رہنے میں بڑی عافیت ہوتی ہے ، اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: من صمت نجا ۔ جو چپ رہا بچ گیا ( ترمذی شریف رقم : 2501 )

آج سوشل میڈیا کا پر فتن دور ہے ، کتنے ہمارے مسلم نوجوان اپنی غیر معقول اور غیر سنجیدہ پوسٹ کی وجہ سے مفت میں سلاخوں کے پیچھے جا چکے ہیں ، خود پریشان ، گھر کے لوگ بھی پریشان اور اگر کسی ادارے سے منسلک ہیں تو ادارہ بھی پریشان ، جبکہ سب کو پتہ ہے کہ ہم فرقہ پرستوں کے ڈار پر ہیں ۔ اللہ ہمیں صحیح سمجھ عطا فرمائے آمین ۔


Post a Comment

0 Comments