مسلم لڑکیوں کے ارتداد میں عصری تعلیم گاہوں اور موبائل کا کردار
تحریر: خالد سیف اللہ صدیقی
بہن نے تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ زیادہ تر مسلم لڑکیوں کے ارتداد کے دو اسباب ہیں ۔ ایک عصری تعلیم گاہیں ، اور ایک موبائل ۔ انہوں نے سوال کیا ہے کہ ، مذکورہ حقیقت کو مان لینے کے بعد ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟ کیا ہمیں بالکلیہ عصری تعلیم گاہوں سے علاحدگی اختیار کر لینی چاہیے ؟ اور موبائل کا استعمال بھی سرے سے ترک کر دینا چاہیے ؟ یا کیا کرنا چاہیے ؟
یہ حقیقت ہے کہ عصری تعلیم گاہیں اور موبائل مسلم لڑکیوں کے حالیہ ارتداد کے اسباب میں سے ہیں ، خصوصا موبائل کا کردار اس سلسلے میں بہت واضح ہے ؛ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ عصری تعلیم گاہوں سے مسلم لڑکیوں کو بالکل علاحدہ ہو جانا چاہیے یا موبائل کا استعمال سرے سے ترک کر دینا چاہیے ۔
اسلام ہر چیز میں اعتدال کی تعلیم دیتا ہے ۔ عصری تعلیم بری نہیں ہے ، نہ عصری تعلیمی اداروں کا قیام برا ہے ۔ برائی دراصل اس نظام اور اس ماحول میں ہے ، جو عصری تعلیم گاہوں میں عموما نظر آتا ہے ۔
نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا یک جا اور مخلوط طور پر تعلیم حاصل کرنا ، لڑکیوں کا پردے کا اہتمام نہ کرنا ، دینی اور مذہبی تعلیم و تربیت کا فقدان ، لڑکوں اور لڑکیوں کا باہم یارانہ اور تعلقات ؛ یہ وہ چیزیں ہیں ، جو بری ہیں ، اور جن کی وجہ سے عصری تعلیم گاہوں کا کردار دیندار اور مذہب پسند لوگوں کی نظر میں کھٹکتا ہے ۔ اگر یہ چیزیں نہ ہوں ، اور نظام تعلیم اسلامی ہو ، عصری تعلیم گاہوں کے بارے میں کسی کو کوئی شکایت نہیں ہو سکتی ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے حالات میں مسلم لڑکیاں کیا کریں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قوم کے علماء اور اہل ثروت کو باہم مل کر اسلامی نظام تعلیم پر مشتمل تعلیم گاہیں قائم کرنی چاہیے ، جہاں مسلم لڑکیوں مکمل تحفظ اور اسلامی ماحول میں تعلیم فراہم کی جا سکے ! اور اگر علماء اور اہل ثروت ایسا نہیں کرتے ، تو مسلم لڑکیوں کو چاہیے کہ وہ اگر موجود طرز کے اداروں میں جائیں ، تو اپنے پورے تحفظ کے ساتھ جائیں !
وہاں کے لادینی ماحول کے اثرات سے خود کو محفوظ رکھیں ، اور اسلامی ذہن و فکر کے ساتھ تعلیم حاصل کریں! علماء کا ذکر یہاں اس لیے کیا گیا ہے کہ اگر علماء اور وہ بھی علوم عصری و دینی کے ماہر علماء ان اداروں کی سرپرستی فرمائیں گے ، تو ادارے اسلامی طرز پر چلیں گے ، اور طلبہ و طالبات کا ذہن دینی و اسلامی ہوگا ۔
بات رہی موبائل کی ، تو موبائل بھی فی نفسہ کوئی بری چیز نہیں ہے ؛ بلکہ جو لوگ اس کا مثبت استعمال کرتے ہیں ، وہ اس سے مثبت چیزیں حاصل کرتے ہیں ۔ اصل چیز استعمال کا مثبت یا منفی ہونا ہے ۔ استعمال مثبت ہو ، تو نتائج بھی مثبت حاصل ہوں گے ۔ اور استعمال اگر منفی ہو ، تو نتائج بھی منفی بر آمد ہوں گے ۔ یہاں بھی یہ اعتدال کی ضرورت ہے ۔ بلا ضرورت موبائل کا استعمال نہ کیا جائے ۔کسی اجنبی سے آشنائی اور یاری سے بچا جائے ۔
دوسری طرف والدین اور ذمے داران کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی ذمے داریوں کو محسوس کریں ۔ اپنی بچیوں پر نظر رکھیں ۔ حد سے زیادہ آزادی نہ دیں ۔ موبائل کے غیر ضروری استعمال روک ٹوک کریں ۔ گھر کا ماحول دین دارانہ اور مذہبی بنائیں ، اور بچیوں کا بھی دینی اور اسلامی ذہن بنائیں ! جب یہ ساری چیزیں ہوں گی ، تو امید ہے کہ ارتداد کی روک تھام ہمارے لیے آسان سے آسان ہو جائے گی ۔


0 Comments