تکبیر اولی کی فضیلت اور ہماری غفلت
تحریر حضرت مولانا رضوان صاحب: استاذ حدیث جامعہ اسلامیہ بنارس
ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ : میں نے ایک بڑھیا کو دیکھا کہ وہ ظہر سے پہلے وضو کر رہی ہے ، میں نے پوچھا : کیا اذان ہو گئی ہے ؟ اس نے کہا : مجھے شرم آتی ہے کہ میرا رب مجھے پکارے تب میں اس کے دربار میں حاضری دوں ، کیوں نہ میں پہلے ہی حاضر ہو جاؤں ؟
ابن عیینہ رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: نا لائق غلاموں جیسے مت بن جاؤ ، کہ جب تک بلایا نہ جائے نہ آؤ ، اذان سے پہلے مسجد میں آیا کرو ۔
سعید بن المسیب کہتے ہیں کہ : تیس سال سے میرا معمول ہے کہ جب مؤذن اذان دیتا ہے تو میں مسجد میں موجود رہتا ہوں ، اب تک اس میں تخلف نہیں ہوا ۔ ( البصیرۃ الابن الجوزی ١٣٤ )
اب تو مؤذن کے علاوہ کسی پکے سے پکے نمازی کا بھی اذان سے پہلے پہونچنا ماورائے تصور ہے ، اول نماز ہی میں کتنے پہونچتے ہیں ، ان میں آدھے مسبوق ہوتے ہیں ، اور ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا کہ تکبیر اولی چھوٹ گئی ، تو ہم کتنے بڑے ثواب سے محروم ہو گئے ۔
تکبیر اولی کی بڑی فضیلت احادیث میں آتی ہے: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔ جس نے اللہ کے لیے چالیس دن باجماعت پہلی تکبیر کے ساتھ نماز ادا کی اس کے لیے دو برائتیں لکھ دی جاتی ہیں ، (١) دوزخ سے خلاصی کی (٢) نفاق سے بری ہونے کی ۔ ( ترمذی شریف، صلاۃ، باب فضل التکبیرۃالأولی، رقم ٢٤١ )
جو شخص اپنی آخرت کی طرف سے فکر مند ہو اس کے لیے چالیس دن کیا مشکل ہے ، مگر در اصل نماز ہی بہت مشکل ہے ، کیوں ؟ اس کی وجہ صاف ہے ، خود قرآن کا بیان ہے: وانھا لکبیرۃ الا علی الخاشعین: بے شک نماز پڑھنا بہت بھاری کام ہے مگر خدا سے ڈرنے والوں کے لیے نہیں ۔
ہم اپنے اپنے گریبان میں منہ ڈال کر سوچیں کہ ہم خوف و خشیت کے کتنے نچلے پایدان پر کھڑے ہیں اور ہمارے اسلاف کس مقام بلند پر تھے ؟ کتنا بڑا فرق ہے ہم میں اور ان میں ؟ اللہ بچائے آخرت سے غفلت برتنے سے ہر مومن کو ۔ آمین


1 Comments
ماشاءاللہ ، جزاک اللہ خیراً
ReplyDelete