مدارس اسلامیہ میں تنخواہوں میں اضافہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے
(کیابزرگوں نے دینی خدمات پر اجرت لیا ہے؟)
مدارس اسلامیہ میں تنخواہوں میں اضافہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے |
مفتی محمد امتیاز پَلاموی،مظاہری
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ علم دین کا حاصل کرنا اور اس کی نشر و اشاعت کرنا دینی فریضہ ہونے کے ساتھ اخلاص کا متقاضی ہے؛ کیونکہ عمل کا دارومدار نیت پر ہے ، حدیث پاک میں ہے: انما الاعمال بالنيات (رواه البخاري) ۔ اگر کوئی شخص اس لیےعلم حاصل کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعے زیادہ مال کمائے گا یا دوسروں پرفوقیت حاصل کرکے شہرت کمائے گا تو یقینا یہ مذموم عمل ہے، فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اور طریقہ اسلاف سے انحراف ہے۔حدیث پاک میں ایسے شخص کے لیے وعید بیان کی ؑگئی ہے:عن ابی ھریرۃ ٰرضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم: مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّا يُبْتَغٰی بِهِ وَجْهُ اﷲِ، لَا يَتَعَلَّمُهُ إِلاَّ لِيُصِيْبَ بِهِ عَرَضًا مِنَ الدُّنْيَا، لَمْ يَجِدْ عَرْفَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَعْنِي رِيْحَهَا.رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْدَاؤدَ وَابْنُ مَاجَه
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے وہ علم کہ جس کا مقصد رضائے الٰہی کی تلاش ہو دنیوی مال و متاع کے حصول کے لئے سیکھا تو ایسا شخص قیامت کے روز جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔
اسی طرح ایک دوسری حدیث شریف میں ہے: وَفِي رِوَايَةِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: لَا تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ لِتُبَاهُوْا بِهِ الْعُلَمَاءَ، وَلَا لِتُمَارُوْا بِهِ السُّفَهَاءَ، وَلَا تَخَيَرُوْا بِهِ الْمَجَالِسَ. فَمَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ فَالنَّارُ النَّارُ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَابْنُ حِبَّانَ وَالْبَيْهَقِيُّ.
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس لئے علم نہ سیکھو کہ اس کی وجہ سے تم علماء پر فخر کرو، نہ اس لیے کہ جہلاء سے جھگڑا کرو، اور نہ اس کے ذریعے مجالس میں برتری تلاش کرو۔ پس جس نے ایسا کیا تو اس کے لئے آگ ہی آگ ہے۔
لیکن جب کوئی شخص اخلاص مندی سے علم دین حاصل کرتا ہے اور اس کے بعد ابلاغ دین کی خاطر درس و تدریس کی غرض سے مدارس اسلامیہ یا کسی بھی دینی شعبہ سے متعلق ہو جاتا ہے تو ایک طرف سے وہ زندگی کے چہار دیواری میں مقید ہو جاتا ہے، اس کے لیے وہ چہاردیواری ہی سب کچھ ہے اس لئے کہ اس نے اپنے آپ کو اس کے حوالے کردیا ہے، اب اہل چہار دیواری اس سے جو بھی خدمت لیں وہ بسر و چشم قبول کر لیتا ہے؛ لیکن اس کے سامنے ایک مسئلہ درپیش ہو جاتا ہے ’’مسائل حیات‘‘ بقاء جان کے لیے اکل و شرب فرض ہے، جبکہ دیگر حوائج و ضروریات کی مثلاً نوپید بیماریوں کا علاج و معالجہ، تعلیم طفلاں کا بندوبست اور اہل خانہ کے خورد و نوش اور ملبوسات کا انتظام لازم ہے، ورنہ وہ اپنی اولاد کے ساتھ نا انصافی کرنے والا اور حقوق زوجہ میں کوتاہی کرنے والا شمار ہوگا،جو کہ شریعت کی رو سے غلط ہے۔
اسے بھی پڑھ لیجیے: مسلم نوجوانوں کو اہم پیغام
مدرسہ میں تدریس کے ساتھ ذاتی خارجی کام کرنا !
اس زمانہ میں اگر کوئی معلم یہ چاہے کہ وقت پر مدرسہ میں حاضری دیتے ہوئے باہر سے اپنا دوسرا کام کرلیں، تو یہ بہت ہی مشکل ہے، اس لیے کہ دونوں کاموں کے لیے وقت نکالنا بہت ہی دشوارہے، اگر تعلیم کے بعد وقت نکال بھی لیا جائے تو تعلیم کے علاوہ نگرانی کا مستقل بوجھ ہوتا ہے۔ کام کی وجہ سے ہلکی سی کوتاہی یا مدرسہ کی حاضری میں تاخیر ہوگئی تو ذمہ داران ہی نہیں بلکہ تمام لوگوں کی زبانیں شور کرنے لگتی ہیں۔ اور اگر شکوے شکایات کی بات رد کردی جائے تب بھی اس معلم کے لیے جو مطالعہ کے ذریعہ کتابیں پڑھاتے ہیں اور جن کے ذمہ سات؍آٹھ گھنٹوں کی کتابیں ہوتی ہیں ان کے لیے بھی کافی مشکل ہے۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس زمانہ میں مدرسہ کو مکمل وقت دینے کے ساتھ خارجی کام کرنا بالخصوص چھوٹے مدرسوں میں خاصہ مشکل ہے۔
کیابزرگوں نے دینی خدمات پر اجرت لیا ہے؟
ایک طرف مہمان نوازی تو دوسری طرف بڑھتی مہنگائی کے ساتھ روز مرہ کی اشیاء کی خرید، یہ ایسے مسائل ہیں جن سے صرف نظر کرنا روز روشن کا انکار کرنا ہے۔ امثال ماضیہ کے چند نمونے پیش کرکے یہ کہنا کہ بزرگان دین اور علماء کرام نے دین کی خدمت کی ہے مگر اجرت اور معاوضہ نہیں لیا ہے تو یہ حقیقت سے منہ پھیرنا ہے۔
بزرگوں نے دینی خدمت پر اجرت لیا ہے اس کا ثبوت:
عمائدین امت اور بزرگان دین نے دینی خدمات پر وظیفہ لیا ہے اور ان کا وظیفہ لینا اخلاص فی العلم والعمل کے منافی نہیں ہے ، چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جب خلیفۃ المسلمین بنائے گئے تو انھوں نے اپنے سارے کام موقوف کرکے خود کو خدمت خلق میں مشغول کر لیا تھا،اس لیے ان کے لیے بیت المال سے وظیفہ متعین کر دیا گیا تھا۔
متقدمین علماء تنحواہ کیوں نہیں لیتے تھے؟
اور رہی بات اس زمانہ کے علمائے کرام کی تو اس وقت چونکہ مسلمانوں کی حکومت تھی اور جو علماء حکومت کی جانب سے کسی عہدے پر متعین کیے جاتے تھے ان کے وظائف منجانب حکومت مقرر کیے جاتے تھے اور جو حکومت کی جانب سے متعین نہ ہوتے تو وہ تجارت کرتے یا آمدنی کے دیگر ذرائع واسباب اختیار کیا کرتے تھے۔
کیا اکابرین دیوبند تنخواہ لیا کرتے تھے؟
ہمارے اکابرین علماء دیوبند میں سے حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن دیوبندی حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی صاحب تھانوی (رحمھم اللہ) اور ان کے علاوہ سینکڑوں اکابرین کی فہرست ہے جو مدرسے سے تنخواہ لیا کرتے تھے اور، یہ حقیقت ہے کہ بدلتے حالات اور گرانی اسباب کے تحت ان کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن اس دورِ فراوانی اور مدارس میں کثرت مال کے باوجود اربابِ مدارس نے تنخواہوں کے سلسلے میں جو بخل کیا ہے وہ قابل افسوس ہے۔
مدارس کی بجٹ میں برکت کا راز!
مشاہدہ ہے کہ جب مدارس میں طلبہ ، شعبہ جات اور اساتذہ کم ہوتے ہیں تو آمد بھی کم ہوتی ہے؛ لیکن جوں جوں طلبہ، شعبہ جات، اور اساتذہ میں اضافہ ہوتا ہے مدرسے کی آمد اور بجٹ بھی بڑھتا جاتا ہے۔ ( یہ اللہ رب العزت کا خاص نظام ہے) عوام کی توجہ اس مدرسے کی جانب بڑھ جاتی ہے جس میں بجٹ زیادہ ہوتا ہے، لیکن جب مدرسے کے ذمہ داران بخل کرنے لگتے ہیں تو نصرت الہی بند ہو جاتی ہے اور اللہ تعالی نے برکت کے لیے عوامی چندے کا جو سسٹم بنایا ہے وہ بھی وہ بھی موقوف ہوجاتا ہے۔
فکر انگیز کلام!
ذرا سوچئے کہ ایک مدرس نے اپنا اہل و عیال اور گھر بار سب کچھ پس پشت ڈال کر خود کو مدرسے کے حوالے کر دیا ہے تو اس کی کفالت کا ذمہ دار کون ہے ؟ اس کی اولاد کی نشونما اور اہل و عیال کا خرچہ کون چلائے گا ؟ اگر وہ خود چلائے گا تو ذرا انصاف کے ترازو پر تول کر بولیے: آج کی اس مہنگائی کے دور میں سات؍آٹھ ہزار روپے اس کے مسائل کے حل کے لیے کافی ہیں ؟ اگر کافی ہیں تو اپنے احوال کا جائزہ لیجئے، اپنی ضروریات کی طرف نظر کرتے ہوئے اپنی تنخواہوں پر نظر ڈالیے اور بتائیے کہ کیا آپ کے مقابلہ میں ایک عام استاد کی تنخواہ کی کوئی حیثیت ہے؟ اور اگر اتنی قلیل تنخواہ کافی نہیں، تو خدارا خدا سے خوف کھائے، مدرسین پر ظلم نہ کیجئے! آخر وہ بھی آپ کی طرح ایک انسان ہیں، بڑھتی قیمتوں کے اعتبار سے اساتذہ کی تنخواہ بڑھانے کا نظم کیجیے ، جس طریقے سے ہر محکمے میں، کارخانے ، اسکول اور دیگر بڑے مدارس میں کیے جاتے ہیں ہیں۔
علماء مدارس سے دور کیوں ہو رہے ہیں؟
کیا ارباب مدارس نہیں جانتے کہ کتنے ہی ذی استعداد فضلاء، جید علماء اور باصلاحیت مفتیان کرام نے خود کو اور اپنی نسلوں کو مدرسے کی لائن سے دور کر لیا ہے؟ صرف اس وجہ سے کہ انہیں ان کی لیاقت کے اعتبار سے یا ان کی ضرورت کے بقدر وظائف نہیں ملتے۔ ہر مہتمم اور منتظم کو اچھے اور باصلاحیت اساتذہ کی تلاش ہے لیکن افسوس ہے کہ ان کی حفاظت کے لیے کوشاں اور فکر مند نہیں ہیں۔
نوٹ: یہ مضمون نگار کی ذاتی رائے ہے، اختلاف ممکن ہے۔
محترم قارئین!
مذکورہ مضمون کے سلسے میں اپنی رائے کمینٹ میں ضرور لکھیں۔
شکریہ
3 Comments
Tankha barhana waqt ka takaja to he hi na barhane wale indallah makhuzj bhi hen chunke unki wajah se baz log din aur madarsah ki taalim se dur bhag rahen hen isleyee kal qaya mat men pakar men aayenge
ReplyDeletebeshak apne sahi kaha ki qayamat ke din zimmedaron ko hisab dwna hoga
DeleteBeshak , tankhah badhni hi chahiye
ReplyDelete