ایک عورت بیک وقت متعدد شوہر کیوں نہیں رکھ سکتی؟
ابن شعیب دربھنگوی
متعلم دارالعلوم دیوبند
میرے ایک دوست لکھتے ہیں کہ:
"(1)ایک عورت ایک ہی وقت میں ایک سے زائد مرد کیوں نہیں رکھ سکتی؟؟جبکہ مردوں کو ایک سے زیادہ عورتوں کو رکھنے اجازت ہے
(2)نسب میں شبہ پیدا ہوجانے والی بات جو کہی جاتی ہے،وہ شبہ تو جنت میں نہیں پایا جاتا اس لیے کم ازکم جنت میں تو عورتوں کو ایک سے زائد مرد دینی چاہیے ،یعنی یہ کہ اگر ایک ہی ٹائم میں ایک عورت کے ایک سے زیادہ شوہر ہوں تو بچہ کے اندر جھگڑا ہوگا کہ کس کا ہے؟ الغرض ثبوت نسب میں شبہ پیدا ہوجائے گا ،میرا کہنا یہ ہے کہ یہ ٹینشن یعنی نسب میں شبہ ہوجانے والا ٹینشن جنت میں تو نہیں ہے نا،یا تو وہاں بچہ پیدا ہوگا ہی نہیں یا ہوگا بھی تو اللہ تعالٰی بتادیں گے کہ کس کا بچہ ہے،تو جب جنت میں یہ ٹینشن نہیں تو جنت میں ایک عورت کو متعدد شوہر ملنی چاہیے ،مرد کو کئی بیویاں ملیں گی لیکن عورت کو ایک ہی شوہر ؟ ایسا بھید بھاؤ عورتوں کے ساتھ کیوں؟؟
ایک عورت متعدد شوہر کیوں نہیں رکھ سکتی!
انہیں جوابا یہ عرض ہے کہ
(1) ہمارا دعویٰ ہے کہ فطرت یہی ہے کہ عورت کہیں بھی رہے خواہ جنت میں ہو یا دنیا میں اس کیلیے مناسب یہی ہے کہ ایک وقت میں اسکا ایک ہی شوہر ہو اور مرد کہیں بھی رہے اس کیلیے ایک سے زائد بیویوں کی گنجائش ہے۔
اس پر کئی دلائل ہیں، یہاں صرف تین دلیل ملاحظہ فرمائیں
(1)سب سے آسان اور زبردست دلیل ہے تعاملِ عقلاء اور یہ بہت بڑی دلیل ہے، یعنی عقلمندوں کا اسی پر اتفاق ہے اور اسی پر عمل ہے، ادنی سے ادنی عقل رکھنے والا شخص اپنی بیوی میں شرکت پسند نہیں کرتا،اور خیال رہے کہ تمام عقلمندوں کا کسی بات پر اتفاق کرلینا اس بات کے فطرت ہونے کی نشانی اور علامت ہوتی ہے،لہذا جب عقلمندوں نے اس بات پر اتفاق کرلیا کہ ایک عورت کیلیے ایک وقت میں ایک ہی مرد ہو اور ایک مرد کیلیے ایک سے زائد عورتوں کی گنجائش ہو اور دنیا بھر کے عقلمند اس پر عمل بھی کرتے رہے تو یہ بات فطرت ہونے کی بڑی نشانی بن گئی،اس کے خلاف کرنے والا یقینا بےعقل شمار کیاجائے گا،ایک وقت میں ایک سے زائد مرد رکھنے والی عورت کو عورت نہیں بلکہ کھلے لفظوں میں "رنڈی "کہا جاتا ہے ۔
اور اس فطرت کاتقاضا دنیا میں بھی ہے اور جنت میں بھی ،لہذا جس طرح یہاں ایک وقت میں ایک عورت ایک سے زیادہ مرد نہیں رکھتی فطرتا اسی طرح جنت میں بھی اسی فطرت میں عمل کرتے ہوئے ایک عورت کو ایک سے زیادہ مرد نہیں دیا جائے گا،
(2)دوسری دلیل، مرد کے مزاج میں فطرتا ہی حاکمیت وقوت ہے (علی الغالب) جبکہ عورت کے مزاج وفطرت میں محکومیت و ضعف ہے (علی الغالب)
اور حاکم فطرتا ایک ہی ہوتا ہے جبکہ محکوم متعدد ہوجاتے ہیں،جیساکہ مشاہدہ ہے کہ وزیراعظم ایک ہی ہے اور عوام کثیر،
لہذا مرد "چونکہ اس کے مزاج و فطرت ہی میں حاکمیت ہے"وہ خواہ جنت میں ہو یا دنیا میں اس کیلیے گنجائش ہے کہ وہ اپنے ماتحت ایک سے زائد محکوموں کو رکھے،اور عورت "چونکہ اس کے مزاج و فطرت ہی میں محکومیت ہے" اور محکوم متعدد ہوجاتے ہیں لیکن وہ سب کے سب ایک ہی حاکم کے ماتحت رہتے ہیں، اس لیے وہ جہاں کہیں بھی ہوں فطرتا انکے کیلیے یہی مناسب ہے کہ وہ ایک ہی حاکم کے ماتحت رہیں ،
لہذا ثابت ہوئی یہ بات کہ عورت کو فطرتا ایک ہی خاوند کی ضرورت ہے جبکہ مرد ایک سے زائد بیویاں رکھ سکتا ہے خواہ جنت میں ہو یا دنیا میں
(3)تیسری دلیل، عورت ایک صاف وشفاف محل ہے،اسکی صفائی کا خیال فطرت نے بھی رکھا ہے کہ ماہواری خون جاری کرکے اسکی صفائی کا خیال رکھا اور مرد اس شفاف محل میں داخل ہوتا ہے اس لیے عقلمند پر بھی فطرتا لازم ہوگیا کہ وہ اس محل کی صفائی کا خیال رکھے،جہاں تک ہوسکے اس محل کو کم گندا کرے،اب دیکھیے کہ اس محل میں داخل ہونا بھی ضروری ہے اور یہ بھی فطرتا ضروری ہے کہ یہ شفاف محل گندا کم ہو
اور یہ دونوں ضرورتیں صرف ایک مرد سے پوری ہوجاتی ہیں کیونکہ ایک سے زائد مرد ایک ہی محل میں آئیں گے تو زیادہ گندگی ہوگی جوکہ فطرت کے خلاف ہے،
اس لیے یہ بات سمجھ آگئی کہ ایک عورت کیلیے ایک وقت میں ایک ہی مرد فطرتا ہوسکتا ہے وہ عورت خواہ دنیا میں ہو یا جنت میں،اور مرد چونکہ داخل ہونے والا ہے اور داخل ہونے والا تو داخل ہونے والا ہوتا ہے اس لیے وہ ایک سے زیادہ عورتوں کے پاس داخل ہوسکتا ہے کیونکہ وہ داخل ہونے والا ہے،اسے ہی روکنا اسکے داخل ہونے والا ہونے کو باطل کرتا ہے ،
جب غیرت مندی یہی ہے کہ ایک عورت کا ایک وقت میں ایک ہی شوہر ہو تو جنت تو غیرت مندوں کی جگہ ہے وہاں اس فطرت پر بدرجۂ اولی عمل کیا جائے گا
دوسری بات یہ کہ
(2)اسلامی احکام کا دار ومدار حکمتوں یعنی فوائد و ثمرات پر نہیں ہوتا بلکہ دلائل شرعیہ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اللّٰہ اور اسکے رسول کے حکم پر مدار ہوتا ہے،جہاں حکم ہوگا جیسا حکم ہوگا ویسا ہی کیا جائے گا،یہ الگ سی بات ہے کہ اللّٰہ اور اس کے رسول کے حکم میں ہزار ہا ہزار حکمتیں ہوا کرتی ہیں،
لیکن یہ حکمتیں احکام کا دارومدار نہیں ہوتی،ان حکمتوں کو بس تشفی قلب کیلیے بیان کیا جاتا ہے،ایسا ہرگز نہیں کہ بیان کی ہوئی حکمت اگر نہ پائی جائے تو حکم بھی نہ پایا جائے گا جیسا کہ بعض لوگوں نے غلط قیاس دورایا کہ پہلے زمانہ میں وضوء کا حکم اس لیے تھا کہ اہل عرب چونکہ محنتی اور جفاکش تھے،اسی وجہ سے انکے ہاتھ پاؤں منہ گندے رہتے تھے،انہیں وضوء کا حکم دیا گیا تاکہ وہ صاف ہو جائیں اب چونکہ سب صفائی کا خیال رکھتے ہیں اسلیے وضو کا حکم منسوخ سمجھا جائے گا،بالکل اسی طرح آپ نے بھی غلطی کی اور احکام کا دارومدار حکمت کو سمجھا اور یہ قیاس دورایا کہ دنیا میں عورتوں کو ایک وقت میں ایک سے زیادہ نکاح کرنے سے اس وجہ سے منع کیا گیا ہے کہ "نسب میں شبہ پیدا ہوجائے گا،شوہروں کا آپس میں جھگڑا ہوجائےگا" یہ وجہ اور یہ فائدہ چونکہ جنت میں موجود نہیں اس لیے عورت کو ایک سے زیادہ مرد ملنی چاہیے،
آپ کا قیاس یقینا غلط ہے،کیونکہ آپ نے حکم کا مدار حکمت،اور فوائد وثمرات کو بنا لیا یعنی نسب میں شبہ پیدا ہوجانا، دوشوہروں کا آپس میں جھگڑنا یہ سب اسلامی حکم کہ"عورت ایک وقت میں ایک سے زائد مرد سے شادی نہ کرے" کے فوائدا وثمرات ہیں نا،یہ فوئداوثمرات مدار نہیں بلکہ اللّٰہ اور اس کے رسول کا حکم مدار ہے اور یہ حکم جنت میں بھی پایا جاتا ہے ،اس لیے وہاں بھی عورتوں کو ایک سے زائد مرد رکھنے کی اجازت نہ ہوگی،
البتہ آپ اگر یہ سوال کریں کہ کیا یہ حکم عقل کے مطابق ہے ؟؟تو ہم نے اوپر تین دلیلوں سے ثابت کردیا کہ عقل وفطرت کے مطابق ہے،اگردلیل کا توڑ آپ کے پاس ہے تو پیش کریں
(3)یاد رکھیں کہ احکامِ اسلامی کا مدار احکام الٰہیہ ہی ہیں،حکمتیں بس تشفیِ قلب کیلیے علماء بیان کر دیتے ہیں ،جن فوائدوثمرات کو نہ اللّٰہ نے بیان کیا اور نہ ہی اس کے رسول نے انہیں ہی لینا اور انہیں مدار بنانا بےعقلی ہے،مذکورہ بالاحکم کی حکمتیں اور فوائد و ثمرات مثلا "ثبوت نسب میں شبہ پیدا ہوجانا،شوہروں کا آپس میں جھگڑنا وغیرہ" کہیں بھی اللّٰہ اور اسکے رسول نے ذکر نہیں کیا،لہذا اس کو مدار بھی بنانا درست نہ ہوگا،لہذا انہیں لیکر اعتراض بھی درست نہ ہوگا
واللّٰہ اعلم
#علماء دیوبند زندہ باد
1 Comments
ماشاءاللہ بہت عمدہ جواب
ReplyDelete