دو عبرتناک واقعات
(١) أمیر سے فقیر اور فقیر سے امیر بننے کا دلخراش واقعہ
علامہ ابنِ جوزیؒ لکھتے ہیں کہ اصفہان کا ایک بہت بڑا رئیس اپنی بیگم کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھا ہوا تھا، دسترخوان خدا کی نعمتوں سے بھر ہوا تھا، اتنے میں ایک فقیر نے صدا لگائی کہ خدا کے نام پر کچھ کھانے کے لیے دے دو !
فقیر اس رئیس کے دروازے پر کھڑا تھا ، اس شخص نے اپنی بیوی کو حکم دیا کہ سارا دسترخوان اس فقیر کی جھولی میں ڈال دو۔ بیوی نے اس کے حکم کی تعمیل کی ، جس وقت اس نے فقیر کا چہرہ دیکھا تو دھاڑیں مار کر رونے لگی ۔
اس کے شوہر نے اس سے پوچھا ، ’’ جی بیگم ! آپ کو کیا ہوا ؟ ‘‘ ۔
بیوی نے بتایا کہ جو شخص فقیر بن کر ہمارے گھر کے دروازے پر دستک دے رہا تھا ، وہ چند سال پہلے اس شہر کا سب سے بڑا مالدار اور ہماری اس کوٹھی کا مالک اور میرا سابق شوہر تھا ۔
چند سال پہلے کی بات ہے کہ ہم دسترخوان پر ایسے ہی بیٹھے کھانا کھا رہے تھے جیسا کہ آج کھا رہے ہیں ، اتنے میں ایک فقیر نے صدا لگائی کہ میں دو دن سے بھوکا ہوں ، خدا کے نام پر کھانا دے دو، یہ شخص دسترخوان سے اُٹھا اور اس فقیر کی اس قدر پٹائی کی کہ اسے لہولہان کر دیا، نہ جانے اس فقیر نے کیا بدعا دی کہ اس کے حالات بد سے بدتر ہوگئے ۔ سارا کاروبار ٹھپ ہوگیا اور وہ شخص فقیر و قلاش ہوگیا ۔ اس نے مجھے بھی طلاق دے دی ۔
اس کے چند سال گزرنے کے بعد میں آپ کی زوجیت میں آگئی ۔
شوہر بیوی کی یہ سب باتیں سن کر کہنے لگا ۔
بیگم ! کیا میں آپ کو اس سے زیادہ تعجب خیز بات بتاؤ ؟
اس نے کہا ، ضرور بتائیں ۔
شوہر کہنے لگا ، جس فقیر کی آپ کے سابق شوہر نے پٹائی کی تھی ، وہ کوئی دوسر نہیں ، بلکہ میں ہی تھا ۔
گردش زمانہ کا یہ عجیب نظارہ تھا کہ حق تعالیٰ نے اس بدمست مالدار کی ہرچیز ، مال ، کوٹھی حتٰی کہ بیوی بھی چھین کر اس شخص کو دے دی ، جو فقیر بن کر اس کے گھر آیا تھا اور چند سال بعد پھر حق تعالیٰ اس شخص کو فقیر بنا کر اسی کے در پر لے آیا ۔ یقیناً حق تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے ۔
تاریخ ایسے سبق آموز واقعات سے بھری پڑی ہے ۔ شرط ہے کہ انسان اس سے عبرت پکڑے ۔
( کتاب العبر )
دوسرا واقعہ
♦️شیخ الحدیث اور شربت کی دکان♦️
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی نوراللہ مرقدہ نے آپ بیتی میں اپنی ذات سے متعلق ایک بڑا دلچسپ واقعہ ذکر کیاہے۔ فرماتےہیں:
ایک مرتبہ سفر سےواپسی پر جب میں ریل گاڑی سے اترا تو سخت پیاس محسوس ہوئی۔ سخت گرمی کا موسم تھا، پلیٹ فارم کےکنارے ایک سکھ کی دکان تھی جسمیں مختلف رنگ کےشربت تھے۔ میں دوکان پر گیا اور ایک بوتل کی طرف اشارہ کرتےہوۓ کہا کہ مجھےوہ فلاں شربت دےدو، سکھ نےمجھے اوپر سےنیچےتک بڑی غور سے دیکھا اور سخت انداز میں بولا : جاؤ یہاں سے! کوئی شربت وربت نہیں ملےگا۔
مجھے بڑا غصہ آیا کہ پیسے دیکر لے رہا ہوں، کوئی فری کا تھوڑی مانگ رہا ہوں۔ یہ سکھ بڑا حاسد قسم کا ہے۔ میں باہر آگیا۔ جو صاحب مجھے لینے آۓ تھے ، میں نے یہ واقعہ ان سےنقل کیا کہ وہ سکھ تو بڑا حاسد ہے، مجھے پیاس لگی ہے اور اس نےشربت دینےسےانکار کردیا۔ وہ صاحب مسکراۓ اور کہا: حضرت! وہ شربت کی دوکان نہیں، شراب کی دوکان تھی. یہ سن کر میں نےآسمان کی طرف چہرا کیا اور کہا الحمدللہ یا میرےاللہ ! تو نے مجھے آج بچا لیا، ورنہ اگر ایک گھونٹ بھی پی لیتا تو میرا کیا ہوتا؟ اور دل ہی دل میں اس سکھ بےچارےکا بہت شکر ادا کیا کہ اس نےمجھے شریف آدمی سمجھ کر دینےسےانکار کردیا۔
حضرت یہ واقعہ نقل کرنے کے بعد فرماتےہیں :
میرے پیارو ! تم اگر متقیوں کی سی شکل ہی اختیار کرلو تو بہت سارے خرافات سے بچ جاؤگے۔
ترےعشق کی کرامت یہ اگر نہیں تو کیا ہے؟
کبھی بےادب نہ گزرا میرے پاس سے زمانہ
(جگرؔمرادآبادی)
1 Comments
ماشاءاللہ بہت ہی عمدہ مضمون ہے
ReplyDelete