ہمارے معاشرے میں الحاد شرک کی شکل میں

 ہمارے معاشرے میں الحاد شرک کی شکل میں 

معاشرہ میں الحاد کی شرک کی شکل میں 


تحریر: محمد بن عبداللہ

٣/ ذی قعدہ ١٤٤٦ھ مطابق ١ مئی ٢٠٢٥ء۔۔۔۔ 

 معاشرے میں فکری زوال کی کئی اقسام ہوتی ہیں ؛ لیکن سب سے خطرناک وہ ہوتی ہے ، جو بظاہر معصوم نظر آئے ؛ مگر درحقیقت اپنے اندر زہریلا مواد چھپائے ہوے ہو ، ہمارے ہندوستانی مسلم معاشرے میں الحاد اور دین سے بیزاری کا جو رجحان پروان چل رہا ہے، اس کی ایک نمایاں اور پیچیدہ شکل وہ ہے ، جو مذہبی آزادی ، رواداری اور انسان دوستی جیسے نعروں کی صورت میں سامنے آتی ہے ؛ لیکن حقیقت میں اس کا منبع و مصدر شرکیہ اور کفریہ تہذیبیں ہوتی ہیں ۔ 

مجھے بھی پڑھیں: قربانی کے تین دن یا چار دن

اس مضمون میں ہم اسی رجحان کا تحقیقی جائزہ پیش کریں گے : کہ کس طرح الحاد شرک کی شکل میں ہمارے معاشرے میں سرایت کر رہا ہے اور اس کے اثرات و نتائج کس حد تک ہیں۔ 

 الحاد اور آزادی مذہب کا باہمی تعلق

 آج کا نوجوان مسلمان مذہب کو صرف ایک ذاتی اختیار یا وراثتی روایت سمجھتا ہے ، نہ کہ ایک فطری ضرورت یا عقلی و روحانی نظام،  اس سوچ کے پیچھے جو فکری قوت کار فرما ہے، وہ وہی نظریہ ہے جسے مذہبی آزادی یا سب برابر کی بنیاد پر پروان چڑھایا جاتا ہے ، جب کسی مسلم ذہن میں یہ تصور راسخ ہو جائے کہ تمام مذاہب برابر ہیں اور ہر ایک کو اختیار ہے کہ جو چاہے عقیدہ اپنائے ، تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اپنے دین کو بھی محض ایک آپشن سمجھنے لگتا ہے۔

  یہی نقطہ آغاز ہوتا ہے الحاد کی اس شکل کا جو شرک کے اثرات سے جنم لیتی ہے ؛ جبکہ قران مجید واضح طور پر اس نظریے کی نفی کرتا ہے :  إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ سوره ال عمران ١٩)

ترجمہ: بے شک اللہ کے نزدیک صرف دين اسلام ہے ۔ 

اور فرمایا : وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ آل عمران ٨٥ )

ترجمہ : اور جو کوئی اسلام کے سوا کوئی اور دین چاہے وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا ۔

 یہ آیات اس بات کا کھلا اعلان ہیں کہ تمام مذاہب برابر نہیں اور اسلام واحد نجات کا راستہ ہے، جب مسلمان اس بنیادی عقیدے کو چھوڑ دیتا ہے تو شعوری یا لاشعوری طور پر الحاد کے قریب ہو جاتا ہے ۔

سماجی مظاہر اور ارتداد کا بڑھتا ہوا رجحان

 اس فکری زوال کے عملی مظاہر معاشرہ میں جگہ جگہ دیکھے جا سکتے ہیں :

 خاص طور پر مسلم لڑکیوں کا غیر مسلم نوجوانوں کے ساتھ فرار ہو جانا ، اپنا مذہب ترک کرنا اور دوسری تہذیب کو اپنانا ۔

اس رجحان کی عکاسی کرتا ہے ، ان واقعات کا محرک صرف جذباتی وابستگی نہیں ہوتا ، بلکہ اس کے پیچھے ایک طویل فکری پس منظر ہوتا ہے ، جس میں مذہبی اقدار کی کمزوری، خاندانی نظام کا انحطاط اور معاشرتی رشتوں کی بے معنویت شامل ہوتے ہیں،  یہ سب عوامل مل کر ایسے ماحول کو جنم دیتے ہیں جہاں دین محض ایک علامت رہ جاتا ہے ، نہ کہ ایک مضبوط عقیدہ ؛ لہذا قرآن پاک میں اس قسم کی بے راہ روی کے لیے تنبیہ موجود ہے: وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا البقره ٢٢١ )

ترجمہ: اور مشرک مردوں سے اپنی عورتوں کا نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں ۔ 

یہ حکم نہ صرف دینی اصول ہے ؛ بلکہ ایک سماجی تحفظ بھی ہے ، جب ان اصولوں کو ترک کیا جاتا ہے ، تو اس کا نتیجہ انحراف اور ارتداد کی صورت میں نکلتا ہے۔

علمی انحراف اور ثقافتی مرعوبیت 

جب مسلمان نوجوان مختلف تہذیبوں سے متاثر ہو کر ان کے رسوم و رواج ، افکار و نظریات اور طرز زندگی کو اختیار کرتے ہیں، تو اس کے پیچھے صرف تقلید نہیں ؛ بلکہ فکری غلامی چھپی ہوتی ہے ، یہی غلامی انہیں اس مقام تک لے جاتی ہے جہاں وہ اپنے دین کو بوجھ اور دوسروں کے نظام کو آزادی تصور کرنے لگتے ہیں ۔

مذہبی آزادی کا نعرہ ایک فریب

مذہبی آزادی کا نعرہ انہیں یہ باور کراتا ہے کہ ہر عقیدہ درست ہے اور ہر راستہ نجات کی طرف لے جاتا ہے ، جب اس سوچ کو قبول کر لیا جاتا ہے ، تو اسلام کی یکتائیت ، اس کا نجات دہندہ ہونا اور اس کی حقیقت سب کچھ مشکوک بن جاتے ہیں ، نتیجہ الحاد کی وہ شکل ہوتی ہے ، جو باطن میں کفر و شرک کا تسلسل رکھتی ہے ؛ لیکن ظاہر میں عقلی و فکری آزادی کا نقاب اوڑھے ہوتی ہے۔

 خاندانی و اجتماعی سطح پر اثرات 

اس فکری گمراہی کے اثرات صرف انفرادی سطح تک محدود نہیں رہتے ؛ بلکہ خاندانی نظام ، معاشرتی رشتے اور اجتماعی نظام سب اس سے متاثر ہوتے ہیں، دین سے بیزار نسلیں نہ صرف اپنی پہچان کھو بیٹھتی ہیں ؛ بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک فکری خلا چھوڑ جاتی ہیں ، ایسے افراد جب والدین بنتے ہیں تو وہ دینی شعور کے بجائے سیکولر رویے وراثت میں منتقل کرتے ہیں ، جس سے نئی نسلیں مزید الحاد کی طرف جھکنے لگتی ہیں ، جس کی وجہ کر آج کے مسلمان گھرانوں میں مذہبی گفتگو ناپید ، قرآن کی تلاوت اور غیر معمولی اور دینی شعور کمزور ہوتا جا رہا ہے، نتیجتاً نئی نسلیں سیکولرزم ، لادینیت اور مذہبی غیر یقینی کی طرف مائل ہو رہی ہیں ۔

معاشرے میں الحاد کی شکلیں

ہمارے معاشرے میں جو الحاد پروان چڑھ رہا ہے ، وہ کسی واضح انکار خدا یا دہریت کی شکل میں نہیں ؛ بلکہ شرک پر مبنی آزادی مذہب کے نظریے کی صورت میں وارد ہو رہا ہے،  یہ ایک خاموش فتنہ ہے ، جو دین کی جڑیں کاٹ رہا ہے،  ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس فکری زوال کا ادراک کریں، اس کی تہوں میں موجود شرک کی بنیاد کو پہچانیں اور اپنی نسلوں کو فکری استقامت اور دینی شعور سے مسلح کریں، الحاد کا مقابلہ صرف دلیل سے ہی ممکن ہے اور دلیل تب مؤثر ہوتی ہے ، جب اس کے پیچھے دین کی سچائی خلوص اور خدمت ہو۔

بہت ہی اہم مضمون: غیراللہ کے لیے علم غیب ماننا شرک ہے

Post a Comment

0 Comments