میلاد پہ انعامی سوالات
اہل میلاد سے چند سوالات
!نحمدہ ونصلی ونسلم علی رسولہ الکریم اما بعد ۔
قارئین ذی وقار! بریلوی حضرات مروجہ جشن عید میلاد کے مسئلہ پر مدعی ہیں جب کہ ہم اہل سنت دیوبند سائل ہیں تو سائل ہونے کی حیثیت سے ہمارے اہل بدعت سے چند سوال ہیں ۔ (١ فاضل بریلوی لکھتے ہیں دلیل شرعی مجتہد کے لیے اصول اربعہ ہیں اور ہمارے لیے قول مجتہد ( فتاوی رضویہ ج8 ص 417 )
(٢) فاضل بریلوی لکھتے ہیں ہر وہ شے جس کا مقتضی پایا جائے اور کوئی مانع بھی نہیں پھر اس کو ترک کر دینا اس پر دال ہے کہ اسے چھوڑا گیا ہے تو کم از کم یہ عمل مکروہ ضرور ہوگا ( فتاوی رضویہ ج8 ص 302 )
قارئین کرام ان سے ہمارا سوال یہ ہے مروجہ جشن عید میلاد سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کوئی مانع نہ تھا اور مقتضی بھی پایا جاتا تھا کہ فرحت علی ولادت نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، مگر ان کا ترک کر دینا فاضل بریلوی کے اصول سے مکروہ تو کم از کم ضرور ہوگا یا نہیں ؟ (٣) فاضل بریلوی لکھتے ہیں صحابہ کرام نے عجم کے ہزاروں شہر فتح فرمائے اور ان میں ممبر نصب کیے اور خطبے پڑھے اور ان کی زبانیں جانتے تھے ، کہ عربی کے سوا کسی اور زبان میں خطبہ جمعہ فرمایا یا غیر زبان کو ملایا ۔ یہ فعل سے رکنا ہے اور رکنے میں اتباع کی جائے گی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے ہمارے کسی معاملے میں اختراع کی حالانکہ وہ اس میں سے نہ تھی تو وہ مردود ہوگی ۔ ( فتاوی رضویہ ج8 ص 466)
ہمارا سوال بھی اہل میلاد سے یہی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم با وجود شدید محبت اور الفت کے اور جان نچھاور کرنے کے اور ایک ایک ادا ہر جنبش کو یاد رکھنے والے اور ہر سنت کو اپنانے اور اس پر مر مٹنے والے تھے مگر مروجہ جشن عید میلاد سے رکے رہے لہذا ان کی اتباع کی جائے گی اور نیا طریقہ اس میں ایجاد کرنا بدعت اور مردود ہوگا۔
(٤) فاضل بریلوی لکھتے ہیں: مصالح کے حصول سے مفاسد کو ختم کرنا اہم اور ضروری ہوتا ہے ۔ ( فتاوی رضویہ ج 6 ص 600 )
میلاد کے نام پر مصالح اور ثواب کو حصول کرنے سے بہتر تو یہی ہوا کہ اس موقع پر برپا کیے گئے مفاسد سے بچا جائے ان مفاسد کی تفصیلات تمہارے اپنے لوگوں نے پوری پوری کتابیں لکھ کر بتا دی ہیں ۔ دیکھیے عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور چند اصلاح طلب پہلو ، معرفت ، تفہیم المسائل جلد 9 وغیرھا تو آپ ان مفاسد سے کیوں نہیں بچتے ؟ علامہ ابن حجر مکی رحمت اللہ تو اپنے دور میں اس میلاد کو قلیل اور نادر کہتے ہیں جو کہ مفاسد سے پاک ہو تو پھر آج کیا حال ہوگا ؟ (٥) خان صاحب بریلوی لکھتے ہیں : حضرت پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانی رحمت اللہ کے بارے میں کہ وہ فرماتے ہیں میری آنکھ لوح محفوظ میرے پیش نظر ہے۔ ( فتاوی رضویہ ج30 ص 492)
دوسری جگہ حضرت پیران پیر کا ارشاد لکھتے ہیں : میرے ارشاد کو خلاف بتانا تمہارے دین کے لیے زہر قاتل اور تمہاری دنیا و عقبی دونوں کی بربادی ہے۔ ( فتاوی رضویہ ج7 ص573)
اب آئیے حضرت شیخ کا فرمان عالی شان سنیے وہ فرماتے ہیں " ولد نبینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم فیہ" ( غنیۃ الطالبین ج2 ص91) کہ ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم 10 محرم الحرام کو پیدا ہوئے۔
تو ہمارا سوال یہ ہے کہ پیران پیر رحمت اللہ نے تو تمہارے بقول لوح محفوظ سے ہی دیکھا ہوگا اور پھر بتایا کہ ولادت کی تاریخ 10 محرم الحرام کو ہے تو آپ لوگوں کو جشن دس محرم کو منانا چاہیے ورنہ تمہاری دنیا آخرت تباہ ہو جائے گی تو آپ اپنی دنیا و آخرت کو کیوں برباد کرنے پر لگے ہوۓ ہو ۔
(6) فاضل بریلوی لکھتے ہیں : اثر انہیں ( یعنی ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ ) سے مروی ہے کہ میں نے صحابہ تابعین میں سے کسی کو بسم اللہ شریف کا جہر کرتے نہ پایا۔ اس کا جہر بدعت ہے۔ ( فتاوی رضویہ ج7ص686)
ہمارا سوال یہ ہے کہ تسمیہ کا جہر سے نماز میں پڑھنا بدعت اس وجہ سے ہے کہ وہ صحابہ و تابعین سے منقول نہیں تو پھر مروجہ جشن عید میلاد بھی ان پاک نفوس سے منقول نہیں ہے اور تقریبا تمہاری مشہور تمام کتب میں یہ درج ہے تو یہ بدعت کیوں نہیں؟
(7) فاضل بریلوی لکھتے ہیں : وضو کا پانی پونچھنے کے لیے یہ جو کپڑے کا ٹکڑا وضع ہوا ہے نو ایجاد بدعت ہے جس کا مکروہ ہونا ضروری ہے اس لیے کہ اس سے پہلے یہ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا نہ صحابہ کرام اور تابعین میں سے کسی کے دور میں تھا۔ ۔ الخ ( فتاوی رضویہ ج1 الف ص333)
ہمارا سوال یہ ہے کہ پرون قرون ثلاثہ میں یہ کپڑے کا ٹکڑا استعمال نہ کیا جائے تو خان صاحب بدعت ہونا نقل فرماتے ہیں تو یہ مروجہ جشن عید میلاد بھی تو قرون ثلاثہ میں نہ تھا تو یہ بدعت کیوں نہیں؟
(8) فاضل بریلوی لکھتے ہیں : مجدد الف ثانی شیخ احمد العمری سر ہندی کے مکتوبات کی جلد ثانی مکتوب 54 میں ہے: دنیا بدعت کے سمندر میں غوطہ لگا چکی ہے اور محدثات کی تاریکیوں میں مطمئن ہے رفع بدعت اور تکلم باحیاء سنت کا دعوی کون کر سکتا ہے اس زمانہ کے اکثر علماء تو بدعت کے حامی اور سنت کے مٹانے والے ہیں بدعت کے شیوع اور کثرت کو تعامل قرار دیتے ہیں اور اس کے جواز بلکہ استحسان کا فتوی صادر کرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ بدعت پھیل جائے اور گمراہی عام ہو جائے تو تعامل بن جاتا ہے یہ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ کسی چیز کا اس کے حسن ہونے کی دلیل نہیں۔ جزایں نیست کہ وہ تعامل معتبر ہے جو صدر اول سے معمول رہا ہو یا اس پر تمام لوگوں کا اجماع ثابت ہو۔۔ الخ ( فتاوی رضویہ ج28ص235) یہی رائے ہم اہل میلاد کے سامنے رکھتے ہیں کہ یا تو مروجہ جشن میلاد کو شروع زمانہ سے معمول بہا ثابت کرو ورنہ تمام امت کا اجماع دکھاؤ ورنہ مان لو کہ بدعت ہے اور تم بدعت کے حامی اور پھیلانے والے ہو۔
(9) فاضل بریلوی ایک مسئلہ پر لکھتے ہیں کم از کم اتنا تو ہے کہ یہ مسئلہ کراہت تحریمیہ اور کراہت تنزیہہ میں دائر ہے تو ایک عمل مشکوک کو چھوڑ دینا دانشمندی ہے۔ ( فتاوی رضویہ ج28ص155) دوسری جگہ لکھتے ہیں جب حکم سنت اور بدعت کے درمیان متردد ہو تو سنت کو ترک کر دیا جائے کیونکہ ترک بدعت لازم اور ادائے سنت غیر لازم ہے۔( فتاوی رضویہ ج6ص528)
ہم بھی یہی کہتے ہیں کم از کم مر وجہ جشن میلاد کراہت تحریمی اور تنزیہی میں دائر ہے یا سنت و بدعت میں دائر ہے تو دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو ترک کر دیا جائے آخر یہاں آپ لوگوں کو عقلمندی کا تقاضہ کیوں سمجھ نہیں آتا ؟؟
(10) فاضل بریلوی لکھتے ہیں : زمانہ اقدس میں صدہا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دوسرے مواضع میں وفات پائی کبھی کسی حدیث سے صحیح صریح سے ثابت نہیں کہ حضور نے غائبانہ ان کی جنازہ کی نماز پڑھی۔۔۔۔حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا عام طور پر ان کی نماز جنازہ نہ پڑھنا ہی دلیل روشن اور واضح ہے کہ جنازہ غائب پر نماز ناممکن تھی ورنہ ضرور پڑھتے ( فتاوی رضویہ ج9ص346) یہی ہمارا سوال ہے کہ 23 مرتبہ ربیع الاول اعلان نبوت کے بعد آیا ہزارہا جان نثاروں کا مجمع تھا مروجہ طرز جشن میلاد آپ نے نہ منایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہ منانا ہی روشن اور واضح دلیل ہے کہ یہ عمل جائز نہ تھا ورنہ آپ ضرور فرماتے تو بریلوی مذہب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غائبانہ جنازہ نہ پڑھیں تو وہ ناجائز اور اگر میلاد مروجہ نہ منائیں تو بدعت کیوں نہیں؟
(11) فاضل بریلوی لکھتے ہیں : مباح محض جس کے کرنے نہ کرنے میں کسی ثواب و فضل کی اصلا امید نہ ہو۔ ( فتاوی رضویہ ج9ص279)
دوسری جگہ لکھتے ہیں : مستحب ومباح کے ترک پر کچھ گناہ نہیں۔( فتاوی رضویہ ج6ص641) تو خلاصہ کلام یہ ہوا کہ مباح کے کرنے پر اجر نہیں ا ترک پر گناہ نہیں تو آئیے دیکھتے ہیں آگے فاضل بریلوی لکھتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس بات کا نہ حکم دیا نہ منع فرمایا وہ مباح بلا حرج ہے ۔۔۔ مجلس میلاد مبارک ، قیام ، فاتحہ ، سوم وغیرھا مسائل بدعت وہابیہ سب اسی اصل سے طے ہو جاتے ہیں۔(فتاوی رضویہ ج30ص524)
تو معلوم ہو گیا کہ میلاد شریف مباح ہے نہ اجر نہ ثواب اور ترک کرنے پر نہ کوئی گناہ۔ ویسے بڑے افسوس کی بات ہے کہ فاضل بریلوی نے حقہ کو بھی مباح قرار دے کر میلاد شریف کے برابر کر دیا ( العیاذ باللہ) وہ لکھتے ہیں : حق یہ ہے کہ معمول حقہ جس طرح تمام دنیا کے بلاد کہ عوام و خاص یہاں تک کہ علماء عظام حرمین محترمین زاد ہم اللہ شرفا و تکریما میں رائج ہے شرعا مباح و جائز ہے۔ ( فتاوی رضویہ ج25ص81)
سوال یہ ہے کہ شرم تم کو مگر نہیں آتی. ( 12) ہم ایک مستحب کی دعوت دے کر پوچھتے ہیں کہ اس پر کتنا عمل ہے؟ مباح پر تو لڑنے مرنے کو آتے ہو مگر مستحب پر عمل کیوں نہیں؟ پانی سے استنجے کے بعد کپڑے سے خوب صاف کر لینا مستحب ہے۔( فتاوی رضویہ ج1 الف ص 330)
تو رضا خانی ملاؤں کے پاس کیا یہ کپڑے ہیں؟ نہیں تو ان کی قوم کو خیال کرنا چاہیے۔ آخر میں گزارش کروں گا کہ خیر القرون میں رائج شدہ دین کو ہم اور آپ اپنے درمیان رائج کریں یہی ہماری کامیابی اور کامرانی ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الکریم الامین و صلی اللہ تعالی علیہ والہ صحابہ اجمعین ۔
1 Comments
Mashaallah bahut khoob
ReplyDelete