قرأت خلف الامام ناجائز ہونے کے دلائل

قرأت-خلف-الامام-ناجائز-ہونے-کے-دلائل
تحریر : محمد امتیاز پلاموی

استفادہ: حنفیہ کا مسلک احتیاط پر ہے
فقہ حنفی کے مطابق سورہ فاتحہ پڑھنا ہر فرض نماز کی پہلی دو رکعت میں ؛ جبکہ وتر اور سنن نوافل کی ہر رکعت میں منفرد اور امام کے لیے واجب ہے ؛ جبکہ مقتدی کے لیے خاموش رہنا اور فاتحہ یا کوئی اور سورت نہ پڑھنا واجب ہے، خواہ نماز جہری ہو یا سری ۔ کتاب المسائل جلد اول صفحہ (267)
مجھے بھی پڑھیں: رفع الیدین نہ کرنے کے دلائل
قرأت خلف الامام کے ناجائز ہونے کے دلائل
دلیل (١): قرآن کریم کی آیت : وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ( سورت الاعراف ۷، آیت (۲۰۴)
ترجمہ: اور جب قرآن پڑھا جائے ، تو اس کو کان لگا کر سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحمت ہو۔
نوٹ: اس آیت کریمہ میں واضح طور پر موجود ہے ، کہ قرأت کے وقت خاموش رہو اور کان لگا کر سنو، اس میں جہری اور سری کی قید نہیں ، ظاہر سی بات ہے کہ امام صاحب قرآن کریم پڑھتے ہیں، سری میں آہستہ اور جہری میں بآواز بلند ، تو مقتدی کے لیے سری نماز میں خاموش رہنا اور جہری میں کان لگاکر غور سے امام کی قرأت سننا ضروری ہوا۔
دلیل (٢) : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا ، وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا، وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا : اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ ) نسائى، تَأْوِيلُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ}، نمبر 921 )
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کہ امام کو اس کی اقتدا کرنے کے لیے بنایا گیا ہے؛ اس لیے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرأت کرے تو تم چپ رہو اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کا ہے تو تم اللہم ربنا لک الحمد کہو۔
نوٹ: اس روایت میں وضاحت و صراحت ہے کہ جب امام قرأت کرے تو مقتدی کو خاموش رہنا ہے۔
دلیل (٣): عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا، وَإِذَا قَالَ: {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} [الفاتحة: 7] ، فَقُولُوا : آمِينَ ( ابن ماجة، بَابُ إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا ، نمبر (846)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کہ امام کو اس کی اقتدا کرنے کے لیے بنایا گیا ہے ؛ اس لیے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرات کرے ، تو تم چپ رہو اور جب وہ غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہے تو تم آمین کہو۔
دلیل (٤): عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ مِنْ صَلَاةٍ جَهَرَ فِيهَا بِالقِرَاءَةِ، فَقَالَ: «هَلْ قَرَأَ مَعِي أَحَدٌ مِنْكُمْ آئِفًا؟»، فَقَالَ رَجُلٌ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «إِنِّي أَقُولُ مَا لِي أَنَازَعُ الْقُرْآنَ؟»، قَالَ: فَانْتَهَى النَّاسُ عَنِ القِرَاءَةِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا جَهَرَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الصَّلَوَاتِ بِالقِرَاءَةِ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ترمذى ، بَابُ مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الإِمَامِ إِذَا جَهَرَ الإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ، نمبر (312)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے : کہ ایک جہری نماز سے فارغ ہوئے، تو حضور اقدس ﷺ نے پوچھا ، کہ کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قرأت کی ہے ؟ تو ایک شخص نے کہا : کہ ہاں ! یا رسول اللہ ، میں نے کی ہے، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسی لیے میں کہہ رہا تھا کہ قرآن میں مجھ سے کون جھگڑ رہا ہے، اس کے بعد جن نمازوں میں جہری قرات ہوتی تھی ، ان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرأت کرنے سے لوگ رک گئے، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی۔
نوٹ: اس روایت میں جہری نمازوں میں امام کے پیچھے قرأت کرنے سے رکنے کا بیان ہے۔
دلیل (٥): أَبُو هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأُ فِيهَا بِأُمِّ القُرْآنِ، فَهِيَ خِدَاجٌ، هِيَ خِدَاجٌ، غَيْرُ تَمَامٍ، فَقَالَ لَهُ حَامِلُ الحَدِيثِ: إِنِّي أَكُونُ أَحْيَانًا وَرَاءَ الإِمَامِ، قَالَ: اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ، (ترمذى بَابُ مَا جَاءَ فِي تَرْكِ القِرَاءَةِ خَلْفَ الإِمَامِ إِذَا جَهَرَ الإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ ، نمبر (312)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے نماز پڑھی اور اس میں ام القرآن یعنی سورہ فاتحہ نہیں پڑھی، تو وہ ناقص ہے، یہ تمام نہیں ، حدیث لینے والے نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا: کہ ہم کبھی امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو کیا؟ تو حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا کہ دل دل میں پڑھو۔
نوٹ : دل میں پڑھنے کا مطلب ہے، کہ دل میں استحضار کر لیا کرو، کیوں کہ پڑھائی زبان سے ہوتی ہے اور وہی معتبر بھی ہے، دل میں پڑھنا کوئی پڑھائی نہیں ہے اور دل میں پڑھنے کا کوئی اعتبار نہیں، یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص نماز میں قرأت زبان سے کرنے کے بجائے صرف دل میں پڑھے تو اس کی قرات معتبر نہیں ہوگی اور نہ ہی نماز ہوگی۔
دلیل (٦) : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: «أَمَرَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أُنَادِيَ أَنْ لَا صَلَاةَ إِلَّا بِقِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الكِتَاب»، " وَاخْتَارَ أَكْثَرُ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ أَنْ لَا يَقْرَأُ الرَّجُلُ إِذَا جَهَرَ الإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ، وَقَالُوا : يَتَّبِعُ سَكَتَاتِ الإِمَامِ، (ترمذى ، بَابُ مَا جَاءَ فِي القِرَاءَةِ خَلْفَ الإِمَامِ ، نمبر 313)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا : کہ میں اعلان کروں کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی، اصحاب حدیث کی اکثر لوگوں نے یہ اختیار کیا کہ امام جہری قرأت کرے تو مقتدی سورہ فاتحہ نہ پڑھے، وہ فرماتے ہیں کہ امام کے ستوں کی اتباع کرے۔
دلیل (٧): عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ، فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ (ابن ماجة ، بَابُ إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا ، غبر 850) ) دار قطني ، بَابُ ذِكْرِ قَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ، نمبر 1233)
ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کہ جس کا امام ہو تو امام کی قرأت اس کی قرات ہو جائے گی، یعنی اس مقتدی کو قرأت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
نوٹ: یہ حدیث مقتدی کے قرأت نہ کرنے پر واضح دلیل ہے، اس میں صراحتاً ذکر ہے کہ امام کے پیچھے نماز پڑھنے والے کو قرأت کی ضرورت نہیں، اس لیے کہ امام کی قرات مقتدی کے لیے کافی ہے۔
دلیل (٨) : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْإِمَامُ ضَامِنٌ، وَالْمُؤَذِّنُ مُؤْتَمَنْ ( ترمذى ، بَابُ مَا جَاءَ أَنَّ الْإِمَامَ ضَامِنٌ، وَالْمُؤَدِّنَ مُؤْتَمَنٌ ، غبر (207)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ امام مقتدیوں کا ضامن ہے اور موذن امانت دار ہے۔
نوٹ: امام مقتدیوں کا ضامن ہے کا مطلب دوسری حدیث میں بیان کیا گیا ہے، امام کی قرأت مقتدی کی قرأت ہے۔
دلیل (٩): عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: «نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ قَالَ: وَأَخْبَرَنِي أَشْيَاحُنَا أَنَّ عَلِيًّا قَالَ: «مَنْ قَرَأَ خَلْفَ الْإِمَامِ فَلَا صَلَاةَ لَهُ ( مصنف عبد الرزاق، بَابُ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ ، نمبر 2810)
ترجمہ: حضرت اسلم رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے امام کے پیچھے قرأت کرنے سے منع کیا ہے، وہ یہ بھی فرماتے ہیں : کہ ہمارے شیخ نے ہمیں خبر دی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے تھے، کہ جس نے امام کے پیچھے قرأت کی اس کی نماز ہی نہیں ہوئی۔
نوٹ: اس روایت میں امام کے پیچھے قرات کرنے پر سخت ممانعت بیان کی گئی ہے ۔
دلیل (١٠): عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، «أَنَّ عَلِيًّا كَانَ يَنْهَى عَنِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ مصنف عبد الرزاق، بَابُ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ، نمبر 2805)
ترجمہ: صحابی کا قول : حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلی فرماتے ہیں : کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ امام کے پیچھے قرات کرنے سے منع کیا کرتے تھے۔
دلیل (١١): عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: «مَنْ قَرَأَ مَعَ الْإِمَامِ فَلَيْسَ عَلَى الْفِطْرَةِ» قَالَ: وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: «مُلِئَ فُوهُ تُرَابًا» قَالَ: وَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: «وَدِدْتُ أَنَّ الَّذِي يَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ فِي فِيهِ حَجَرٌ) مصنف عبد الرزاق، بَابُ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ ، نمبر 2806)
ترجمہ: قول صحابی: حضرت محمد بن عجلان فرماتے ہیں : کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : کہ جس نے امام کے ساتھ قرأت کی ، وہ فطرت پر نہیں ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ اس کے منہ میں مٹی بھر دی جائے اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کہ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ جو امام کے پیچھے قرات کرتا ہے ، اس کے منہ میں پتھر ڈال دوں۔
نوٹ: امام کے پیچھے قرأت کرنے والوں کے متعلق اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے سخت بیان ہیں۔
دلیل (١٢): عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ قَالَ: «وَدِدْتُ أَنَّ الَّذِي يَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ مُلِيَ فَاهُ تُرَابًا ) مصنف عبد الرزاق ، بَابُ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ، نمبر (2807)
ترجمہ: قول تابعی: حضرت ابراہیم نخعی ، حضرت اسود رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں ، وہ فرماتے ہیں: کہ میرا جی یہ چاہتا ہے کہ جو امام کے پیچھے قرأت کرے اس کے منہ میں مٹی بھر دی جائے۔
نوٹ: امام کے پیچھے قرأت کرنے والوں کے متعلق اجلہ تابعین کے اقوال ۔
دلیل (١٣): سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ: أَتَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ شَيْئًا؟ فَقَالَ: «لَا ( مصنف عبد الرزاق، بَابُ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ، نمبر 2819)
ترجمہ: قول صحابی: میں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا : کہ کیا آپ ظہر اور عصر کی نماز میں امام کے پیچھے کچھ پڑھتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا : نہیں۔
نوٹ: اس قول صحابی میں صراحت ہے کہ ظہر اور عصر یعنی سری نمازوں میں بھی امام کے پیچھے قرأت نہیں کی جائے گی ۔
معاشرہ میں الحاد شرک کی شکل میں
0 Comments